گنجوں کی کنگھی پر لڑائی

گنجے ہیں ہمارے سیاستدان۔ سارے سیاستدان (ماسوائے جماعت اسلامی‘ ایم کیو ایم اور چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں) اور کنگھی ہے اقتدار۔ سر پر بال نہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں کنگھی پر۔ دامن اور گریبان سلامت نہیں! قومی یا عوامی مفاد کی خاطر ہرگز نہیں بلکہ صرف ذاتی یا زیادہ سے زیادہ گروہی مفاد پر۔ جنگ و جدل کی آگ 8 فروری سے تین ہفتے پہلے اور 8 فروری سے ایک ہفتہ بعد زیادہ شدت سے بھڑک اٹھی۔ سعادت حسن منٹو کا بھلا ہو کہ اپنی کمال کی تصنیف (سوانحی خاکے) کا نام گنجے فرشتے رکھا۔ افسوس کہ میرا قلم اور میرا ضمیر‘ دونوں مجھے گنجوں کے ساتھ اس لفظ کا اضافہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ مذکورہ بالا سیاستدان کس خفیہ ہاتھ (جدید سیاسی اصطلاح کے مطابق Deep state) کی سرپرستی کی بدولت تخت نشین ہوئے‘ وہ ان سطور کا ہر قاری بخوبی جانتا ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کے اندر برائے نام بھی جمہوریت نہیں‘ وہ شخصی آمریت کا ایک Camouflage ماڈل ہیں۔ اُن کی حکمت عملی‘ ان کے اغراض و مقاصد اور ان کا منشور ہر لحاظ اور ہر زاویہ سے عوام دوست نہیں بلکہ عوام دشمن ہے۔ وہ 99 فیصد عوام کے بجائے محض ایک فیصد خواص (اشرافیہ) کے مفاد کی حفاظت کرتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اِلا ماشاء اللہ قوتِ اُخوتِ عوام پر انحصار نہیں کرتی۔ اگر سیاسی راہ نمائوں کی جڑیں طاقت کے مراکز کے بجائے کسانوں اور مزدوروں اور کم آمدنی والے طبقے کے دل و دماغ میں ہوتیں تو آج وہ گنجی نہ ہوتیں‘ اُن کے سروں پر عوامی تائید کے بال ہوتے۔ سیاستدان لڑ رہے ہیں اُس کنگھی کے لیے جو اُنہیں مل بھی جائے‘ عنایتِ خسروانہ کے طور‘ تو اُن کے کس کام کی؟
ڈاکٹر مبشر حسن (مرحوم) پیپلز پارٹی کے اُس وقت سیکرٹری جنرل تھے جب وہ برسر اقتدار تھی اور ڈاکٹر صاحب وزیر خزانہ تھے۔ بڑے ذہین شخص تھے مگر یہ راز اُن پر اقتدار سے معزول ہو جانے کے بعد کھلا کہ اُن کے پاس اقتدار تو تھا مگر وہ برائے نام تھا۔ صرف دکھاوے کا‘ کھوکھلا اور نمائشی! یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ایک بہت اچھی کتاب لکھی تو اُس کا نام The Mirage of Power (طاقت کا سراب) رکھا۔ کیا شریف خاندان‘ بھٹو خاندان اور اُن دونوں کے 30‘ 40 سالہ دورِ اقتدار کے بعد عمران خان کو اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں اس حقیقت کا پتا نہیں چلا جو ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب کا عنوان بنی؟ یقینا وہ سب لوگ جو اس المناک (ٹریجک) ڈرامے کے کردار ہیں‘ بخوبی جانتے ہیں مگر مانتے نہیں ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ پھر وہ سارے کنگھی کے پیچھے کیوں اتنے زور و شور سے بھاگ کر اپنے آپ کو ہلکان کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ (عوام کی لوٹی ہوئی دولت کے باوصف) فارغ البال تو ہیں مگر سر پر ایک بال بھی نہیں۔ پھر باہمی بزم آرائی کا کیا جواز ہے؟ جواب بڑا آسان اور سادہ ہے۔ اقتدار کی بلند و بالا میز سے گرے ہوئے لقموں میں ایک بھی ان کے ہاتھ آ جائے (جو ضرور آ جاتا ہے) تو ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔ بیشتر کے نزدیک اقتدار کا مطلب ہے: لوٹ مار‘ استحصال اور طرح طرح کے مالی فوائد۔ ہمارے حکمران طبقے کی عوام دشمنی کا صرف ایک پہلو نہیں۔ وہ ہمہ گیر اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت سی ایسی مرکزی وزارتوں‘ جن کے وجود کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہا‘ پر سالانہ 500 ارب خرچ بلکہ برباد کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے انتخابی جلسوں میں یہ بات بار بار دہرائی کہ وفاقی حکومت بڑی بڑی صنعتوں (جو اربوں روپے کماتی ہیں) کو ہر سال 1500 ارب کی مالی امداد (سبسڈی) دیتی ہے۔ ہمارے غیر پیداواری اخراجات (آمدنی کے تناسب سے) امیر اور ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو نہ پانی نظر آتا ہے اور نہ آسمان پر چمکتا ہوا سورج۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے نہ شمسی توانائی کی طرف توجہ دی اور نہ پن بجلی کی طرف حالانکہ وہ دونوں ذرائع بجلی؍ توانائی مہیا کرنے کے سب سے سستے طریقے ہیں۔ اُنہوں نے IPP (ڈیزل اور وہ بھی درآمد شدہ‘ سے انتہائی مہنگے نرخوں پر بجلی پیدا کرکے واپڈا کو فروخت کرنے والے کاروباری اداروں) کو معرضِ وجود میں لا کر ہمارے قومی بجٹ کو سالانہ اربوں روپو ں کے خسارے کی وہ سزا دی جس نے ہمارے ملکی بجٹ کے ساتھ ساتھ گھریلو بجٹ کو بھی تہس نہس کر دیا۔ ان گنجے سیاستدانوں نے چلتی ہوئی سٹیل مل اور اونچی ہوائوں میں اڑان بھرتی قومی ایئر لائن کو اپنی نالائقی اور بدعنوانی کے مہلک امتزاج سے اس عبرتناک حالت میں پہنچا دیا کہ اب فواد حسن فواد (نگران وزیر برائے نجکاری) کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ حکومت ان اداروں کو فروخت کرنا چاہتی ہے مگر کوئی خریدار نہیں ملتا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن اس لحاظ سے دنیا میں انوکھے اور اپنی مثال آپ تھے کہ انتخابات سے ایک دو‘ ماہ قبل ہی سب لوگوں کو انتخابی نتائج کا پتا تھا۔ یہ ایک کھلا راز تھا کہ کسی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملے گی اور تین بڑی سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم کی طرز پر دوبارہ ایک مخلوط حکومت بنائیں گی۔ آپ نے دیکھ لیا کہ اربوں روپے جھونکنے اور کئی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد اور لاکھوں سرکاری ملازمین (خصوصاً اساتذہ) کو اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی سے روک کر الیکشن میں ذمہ داریاں سونپنے کے باوجود ہمارا سیاسی بحران پہلے سے زیادہ گمبھیر اور سنگین ہو گیا ہے۔ میں 55 برس سے ایک یورپی ملک میں رہتا ہوں‘ یہاں جب بھی سیاسی معاملات اُلجھ جائیں یا حکومت کسی بند گلی میں پھنس جائے اور فیصلہ سازی میں شفافیت نہ رہے‘ حکمت عملی متنازع ہو جائے تو اُس کا یہ آزمودہ حل تجویز کیا جاتا ہے کہ نئے الیکشن کرا لیے جائیں تاکہ معاملات سلجھ جائیں اور حکومت کی گاڑی پھر ہموار انداز سے رواں دواں ہو جائے۔ حکومت وہ نئی حکمت عملی اختیار کرنے کی پابند ہوتی ہے‘ جسے جمہور کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔ 1970ء میں ہمارے ہاں ہونے والے عام انتخابات ہر لحاظ سے فری اینڈ فیئر تھے مگر اس وقت کی مقتدرہ الیکشن جیتنے والی پارٹی (عوامی لیگ) کو اقتدار دینے پر آمادہ تھی اور نہ ہی اس کے سو فیصدی جائز مطالبات (چھ نکات) کو تسلیم کرنے پر۔ نتیجہ کیا نکلا؟ بے حد تباہ کن! کتنی برساتیں آئیں اور گزر گئیں مگر بقول فیضؔ خون کے دھبے ابھی تک نہیں دھلے۔ کیا اس عظیم سانحے سے ہم نے کوئی سبق سیکھا؟ ہرگز نہیں!گزری نصف صدی میں ہم نے سیاسی مسائل کو طاقت کے زور پر حل کرنے کی جو پالیسی اپنائی‘ وہ خود کشی کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محسن داوڑ‘ علی وزیراور مولانا ہدایت الرحمن (گوادر) سیاسی اُفق پر عوام کی آواز (زبانِ خلق اور نقارۂ خدا بن کر) اُبھرے ہیں۔
شمالی کوریا کی طرح دنیا کے کئی ممالک کا سیاسی بندوبست آمرانہ ہے اور اُن کا کاروبارِ حکومت بخوبی چل رہا ہے۔ زیادہ تر ممالک میں نظامِ حکومت جمہوری ہے‘ اور وہ بھی بہت اچھی طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں (اشیائے خوردنی کی طرح) ملاوٹ شدہ جمہوریت ہے اور نہ نظر آنے والی آمریت‘ یہ ایک ملا جلا بائبرڈ نظام ہے۔ سیاستدان کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کی ڈور پردے کے پیچھے سے کوئی اور ہلاتا ہے۔ وہ ان کو کنگھی دکھاتا توہے مگر دیتا نہیں اور یہ بیچارے اسی کے پیچھے ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں۔ اب الیکشن ہو جانے کے بعد‘ بقول غالبؔ حالت یہ ہے کہ نہ ٹھہر سکتے ہیں اور نہ بھاگ سکتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے اپنے پائوں کو زخمی کر لینے کا نتیجہ۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے ایک فرسودہ‘ عوام دشمن‘ گلا سڑا نظام حالتِ نزع میں ہے۔ اس کے اپنے داخلی تضادات اس کو لے ڈوبیں گے۔ اسے مصنوعی تنفس سے زیادہ دیر فعال نہیں رکھا جا سکتا۔ اب اسے دفن کرنا یا بدلنا ہو گا۔ کنگھی کے لیے لڑنے والے اپنے گنجے سروں کو دیکھیں اور پہلے اپنے سروں پر بال اُگائیں۔ سلطانیٔ جمہور‘ قوتِ اُخوتِ عوام اور عوام دوستی کے بال۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں