آیئے ایک نیا معاہدہ عمرانی لکھیں… (3)

آج کا کالم چند کالم نگاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے شروع کیا جاتا ہے۔ خورشید ندیم صاحب‘ محمود شام صاحب‘ دردانہ نجم صاحبہ۔ جنہوں نے اپنے کالموں میں اتنے فکر انگیز سوال اُٹھائے ہیں کہ جب میں نے اُنہیں پڑھا تو میرا وہی حال ہوا جو ایک شاعر نے بڑی خوبصورتی سے یوں بیان کیا:
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستان کھل گیا
خورشید ندیم صاحب نے موجودہ عوام دُشمن طریقۂ انتخاب کے بجائے متناسب نمائندگی کی بے حد مناسب تجویز پیش کی ہے۔ اس نظام کے تحت ایک بھی ووٹ ضائع نہیں جاتا۔ اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کا تعین ہر پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ اس سے دو بڑے فائدے ہیں۔ الیکٹ ایبلز کا بوریا بستر گول ہوتا ہے اور جمہوریت کی رُوح کا احترام اور پاسداری بھی ہوتی ہے۔ جتنے ووٹ اُتنی نشستیں۔ ان دنوں کیا ہوتا ہے؟ ایک پارٹی ہر سیٹ پر 49 فیصد ووٹ لے کر تمام کی تمام سیٹیں ہار سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں‘ زیادہ نشستوں پر وہ امیدوار کامیاب ہوتا ہے جسے اکثریت (یعنی 50 فیصد سے کم یا بہت کم) ووٹ ملے ہوں۔ اگر چار اُمیدواروں کو 10 فیصد‘ 20 فیصد‘ 30 فیصد اور 40 فیصد ووٹ ملیں تو 40 فیصد ووٹ لینے والا جیت جائے گا حالانکہ اُس کی مخالفت میں 60 فیصد ووٹ ملے۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے۔ ہم اس کا ازالہ کیوں نہیں کرتے؟ ایک زمانہ میں جماعت اسلامی متناسب نمائندگی کی سب سے بڑی (بلکہ واحد) وکیل تھی۔ اب وہ بھی اس سو فیصد جائز مطالبے کو دُہراتے دُہراتے اتنی تھک گئی کہ اب اسے اپنے منشور میں بھی نہیں لکھتی۔ غالباً یہ کالم نگار اتنا خوش نصیب نہیں کہ اسے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے قائدین پڑھتے ہوں‘ لہٰذا جب یہ سطور شائع ہو جائیں گی تو میں نہ صرف دونوں مذکورہ بالا جماعتوں بلکہ جمعیت علمائے اسلام‘ محمود خان اچکزئی‘ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ‘ پاکستان ورکرز پارٹی‘ ایاز لطیف پلیجو اور ڈاکٹر قادر مگسی صاحبان کو بھی یہ کالم ارسال کروں گا۔ وسط اپریل میں وطن عزیز آنے کا پختہ پروگرام بن گیا ہے۔ ہوائی ٹکٹ سرہانے رکھ کر سوتا ہوں تو بڑے سہانے خواب آتے ہیں۔ پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کے خواب۔ مکھیوں‘ مچھروں اور مجرموں سے پاک و صاف خواب۔ میں دعائیں دیتا ہوں اُن تمام افراد کو جن کی اجتماعی کوشش سے اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے آئین کا قبلہ درست ہوا۔ ایم کیو ایم کی ساری قیادت (بالخصوص ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ مصطفی کمال اور کشور زہرہ صاحبہ) میرے دلی شکریے کے مستحق ہیں (یہاں شکریے کا لفظ کچھ کمزور لگتا ہے‘ اس لیے مناسب ہو گا کہ اپنے آپ کو ان کا احسان مند لکھوں)۔ ان افراد نے یہ کمال کر دیا کہ نہ صرف خودمختار ضلعی حکومت کی بات ان چھہتر سالوں میں پہلی بار کی بلکہ یہ مطالبہ (بذریعہ مجوزہ آئینی ترمیم) بھی کیا کہ نیشنل فنانس کمیشن ضلعی حکومتوں کو براہِ راست مالی مدد (گرانٹ) دے تاکہ وہ صوبائی حکومتوں کی محتاج اور دست نگر نہ رہیں۔ میں سندھ کے وزیراعلیٰ جناب مراد علی شاہ کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر اُنہوں نے دو مارچ کو ایک بیان میں یہ بات کہی کہ سندھ میں تو بلدیاتی نظام پہلے ہی بڑی شان و شوکت اور سج دھج سے چل رہا ہے‘ اس کی ضرورت ہے تو پنجاب کو۔ غالباً شاہ صاحب کو علم نہیں کہ سندھ کے دیہات کا تو کیا ذکر‘ کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں‘ سیلاب زدگان کو کھلے آسمان تلے بیٹھے دو سال گزر چکے ہیں مگر ابھی تک ان کی بحالی نہیں ہو سکی۔ دوسری طرف پاکستان کی آمدنی کو دو تہائی ٹیکس دینے والے کراچی کا شمار دنیا کے بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ نہ امن و امان‘ نہ صفائی‘ نہ بجلی‘ نہ گیس‘ نہ پانی۔ ہوا تک زہریلی بن چکی ہے۔ جا بجا ناجائز تجاوزات کے قانون کے تحت مسمار کردہ رہائشی عمارتیں۔ ذرا سی بارش برس جائے تو قیامت آ جاتی ہے۔ نکاسیٔ آب کا کوئی انتظام نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ چار ہزار سال پرانے موہنجودڑو کے کھنڈرات میں یہ انتظام آج بھی چالو ہے۔ سندھ کے کرتا دھرتا ذرا اپنے چاک گریبان اور دامن کو ایک نظر دیکھ لیں۔ جو خرابی ہے‘ وہ یقینا ہمہ گیر اور وسیع و عریض ہے‘ اسے دیانتداری سے تسلیم کریں اور پھر اسے دور کرنے کے لیے میدانِ عمل میں اُتریں۔ سندھ کو صوفیا کرام کا مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اگر اس کا پاس اہلِ حکومت نہ کریں گے تو کون کرے گا؟
کالم نگار یہاں تک پہنچا تھا کہ اس کے بوڑھے کانوں میں ایک آواز آئی جس نے مجھے چونکا دیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو نشر ہو رہا تھا اور وہ بار بار جس لعنت کا ذکر کر رہے تھے اور اُس کی خرابیاں گنوا رہے تھے اُس کا نام ہے کوٹہ (Quota) سسٹم۔ یقینا وہ سچ بول رہے تھے اور وہ بھی کسی مبالغہ آرائی کے بغیر۔ کالم نگار نے اپنی زندگی کے 70 برس علمِ سیاسیات پڑھنے اور (دس برس برطانیہ) میں پڑھانے میں صرف کیے ہیں۔ یقین جانیے کہ میں وطن عزیز کے علاوہ کسی ایک (دوبارہ لکھتا ہوں کہ کسی ایک بھی) ملک کو نہیں جانتا جہاں کوٹہ سسٹم رائج ہو اور اتنی برائیوں اور ناانصافیوں اور زیادتیوں کو جنم دیتا ہو۔ کیا اتنی بڑی اور پُرانی برائی پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو نظرنہیں آتی؟ اگر آتی ہے تو وہ اس کے خلاف بولتے کیوں نہیں؟ یہ مجرمانہ خاموشی ناقابلِ معافی ہے۔
یہ سطور لکھ چکا تھا کہ خیال آیا کہ بھلا ان تین سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے اُونچے مسند پر براجمان ''بڑے‘‘ لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایسی پُرمغز تحاریر پڑھنے کے لیے چند منٹ نکالیں۔ مجھے یہ پنجابی کہاوت یاد رکھنی چاہئے تھی کہ جو شخص دروازے پر دستک دینے والے کی آواز سُنے‘ آخرکار اُٹھ کر دروازہ کھولنے کی زحمت بھی اُسے ہی اُٹھانا پڑتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ میں جن لوگوں کو یہ کالم پوسٹ کرنا چاہتا تھا وہ فہرست مزید لمبی ہو گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں:
قہرِ درویش برجانِ درویش
میری طرح کے ایک پنشن یافتہ شخص کو اچھے اور کارآمد مشورے دینے سے پہلے کم از کم دو بار ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر اُس کی اپنے مشوروں کے بارے میں رائے اتنی ہی اچھی ہے تو وہ انہیں ''مکتوب الیہ‘‘ تک پہنچانے کا مالی بوجھ اُٹھانے کے لیے بھی تیار ہو جائے۔ کالم نگار کے دِل میں بقول اقبالؔ صداقت کے لیے سونے کی تڑپ کے آثار ہرگز نظر نہیں آتے‘ تو وہ اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے تو کیونکر؟
جناب توصیف احمد خان نے پرائمری سکول کے 56 سالہ اُستاد ہدایت اللہ لوہار کے قتل پر ایسی پُراثر تحریر لکھی کہ لگتا تھا کہ:
گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مقتول کا جرم کیا تھا؟ صرف ایک مگر وہ تھا بڑا جرم۔ تبدیلی کے خواب دیکھنا۔ سول سوسائٹی کا شکریہ کے اُس نے پریس کلب کراچی کے باہر اس اندھے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ ماضی قریب میں 778 افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ چار سو سے زائد افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے والے ایک افسر کو نہ ایک دن کی قید کی سزا ملی اور نہ ایک روپے کا جرمانہ ہوا۔ آئین میں جو بنیادی حقوق لکھے ہوئے ہیں‘ وہ تکلیف دہ مذاق بن چکے ہیں۔ یاد رہے کہ آئین نے ہی ضمانت دی تھی کہ اگلے پندرہ برس (1988ء) تک اُردو ہماری سرکاری (اور ذریعۂ تعلیم کی واحد) زبان ہو گی۔ یہ آئینی شق بھی زینتِ طاقِ نسیاں بن چکی ہے۔ ہمارا آئین 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا چربہ ہے۔ کیا اب بھی وہ مبارک گھڑی نہیں آئی کہ جب عوام کے جائز اور صحیح نمائندے‘ سول سوسائٹی کے ترجمان‘ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان‘ صحافی‘ وکلا‘ کسان اور مزدور‘ یہ سب مل کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک آزاد ملک کا نیا معاہدہ عمرانی مرتب کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں