دور دیس کی خبریں…(1)

میں نے آج کا کالم صرف برطانیہ سے جُڑی اُن حالیہ خبروں کے لیے مخصوص کر دیا ہے جو غالباًپاکستان کے اخبارات اور چینلز کی زینت نہیں بنیں۔ آپ کی سہولت کے لیے میں انہیں نمبر وار لکھوں گا۔ (1): 1975-80ء میں میری بیوی اور میں Slough( مغربی لندن میں ہیتھرو ہوائی اڈے کا مضافاتی علاقہ) کے دو کالجوں میں سماجی علوم پڑھاتے تھے۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے دو ہونہار طالبعلم ہمارے ایک ''گرائیں‘‘ (سیالکوٹی ہونے کے حوالے سے) اور اُسی شہر میں رہنے والے میرے دوست اکرام صاحب کے بیٹے تھے۔ سلائو میں زندگی کے بہترین 18 سال گزار کر ہم 25 میل کا فاصلہ طے کر کے مشرقی لندن منتقل ہو گئے کیونکہ ہمارے پانچ کے پانچ بیٹے (مختلف درجوں میں) قانون کی تعلیم کے حصول کی خاطر لندن کے رہائشی بن چکے تھے۔ انسانی تعلقات میں جغرافیہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہم نے سلائو چھوڑا تو وہاں رہنے والے سب دوستوں سے رابطہ کمزور ہوتے ہوتے صفر ہو گیا۔ ان میں اکرام صاحب اور ان کے اہلِ خانہ بھی شامل تھے۔ ہمارے بچوں کی طرح اُن کے بڑے بیٹے تنویر نے نہ صرف قانون کی ڈگری حاصل کی بلکہ بیرسٹر بننے کی عملی تربیت (جو دو سال لیتی ہے) کا مرحلہ بھی کامیابی سے طے کیا اور کمال کا کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ وہ ایک سخت مقابلے کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرکے برطانوی محکمہ انصاف کا بطور جج رکن بن گیا۔ تنویر کی زندگی خاموشی سے آگے بڑھ رہی تھی اور کوئی دن کی بات تھی کہ وہ ترقی پاکر جونیئر سے سینئر جج بن جاتا۔
آپ جانتے ہوں گے کہ غزہ سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ساری دنیا میں سب سے بڑے اور سب سے زیادہ (ہر ہفتے کو بعد دوپہر) مظاہرے لندن میں ہوئے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ ایک ماہ قبل ایسے ایک مظاہرے میں تین نوجوان برطانوی خواتین (جن میں کم از کم ایک یہودی تھی) نے اس طرح حصہ لیا کہ اُن کے کوٹ کی پشت پر Paraglider کی تصویر نمایاں طور پر چسپاں تھی۔ آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ اس تصویر کی نمائش کا مقصد اُن فلسطینی مجاہدین کی حمایت کرنا تھا جو آٹھ اکتوبر کو اس مشین کو استعمال کر کے غزہ سے اُڑ کر اسرائیل کی صریحاً غاصبانہ اور غیر قانونی طور پر بسائی گئی بستی میں اُترے۔ مزاحمت کرنے والے یہودیوں کو اُنہوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا اور ایک بڑی تعداد میں (دو سو کے لگ بھگ) اسرائیلی مرد و خواتین کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے۔ اُن میں سے بہت کم اس وقت تک رہا کیے گئے ہیں۔ اسرائیل ان پانچ ماہ میں مسلسل جاری رہنے والی اندھا دھند بمباری سے غزہ میں 30 ہزار سے زیادہ بے گناہ مسلم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کر چکا ہے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں (جو امریکہ نے بطور تحفہ دیے) نے غزہ کی‘ صرف محاورتاً نہیں بلکہ واقعتاً اور لفظاً اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر حماس نے یرغمالیوں کو (پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی) حفاظت سے اس طرح چھپا کر رکھا ہوا ہے کہ وہ اسرائیلی بمباری سے بدستور محفوظ ہیں۔ مذکورہ بالا تین خواتین کا پولیس نے دہشت گردی کی حمایت کرنے کے قانون کے تحت چالان کر کے اُنہیں عدالت میں پیش کیا تو جج تنویر اکرام صاحب تھے۔ اُنہوں نے ان تینوں خواتین کو سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں چھ‘ چھ ماہ قید کی سزا دی جا سکتی ہے مگر جج اُن کے پُرامن احتجاجی مظاہرے سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ اُنہیں صرف بارہ ماہ کی مشروط رہائی دے گا۔ Conditional Discharge کا مطلب یہ ہے کہ اگر ملزم اس نوعیت کے جرم کا دوبارہ ارتکاب کرے گا تو اُسے نئے جرم کی سزا میں اس بار نہ دی جانے والی چھ ماہ کی قید بھی جمع کر دی جائے گی‘ بشرطیکہ دوسرے جرم کا ارتکاب بارہ ماہ کے اندر ہو اور دوسرا جرم اُسی نوعیت کا ہو جس کا پہلا تھا۔ جونہی یہ فیصلہ سنایا گیا‘ وہ ٹی وی نشریات میں ہیڈ لائن بنا اور اخباروں کے صفحۂ اول پر شائع کیا گیا۔ زرد صحافت کے علمبرداروں (مثلاً ڈیلی میل) سے لے کر سنجیدہ اور ذمہ دار اخباروں (مثلاً ٹائمزاور ٹیلیگراف) تک‘ سب نے اس فیصلے کی جی بھر کرمذمت کی اورجج کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اچھی خبر یہ ہے کہ برطانوی نظامِ انصاف کی نگران کمیٹی نے جج کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(2): ایک ارب پتی کاروباری ادارے (جسے اماراتی حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہے) نے حال ہی میں برطانیہ کے ایک معتبر اخبار (ڈیلی ٹیلیگراف) کو خریدنے کیلئے پیش قدمی کی تھی مگر برطانوی حکومت نے (جو ساری دنیا میں فری ٹریڈ کا ڈھول بجاتی ہے) اس کی اجازت نہیں دی اور احتیاطاً پارلیمنٹ میں ایک مسودۂ قانون (جس کا ایکٹ بن جانا یقینی ہے) بھی پیش کر دیاجس کی رُو سے کوئی بھی غیر ملکی فرد یا کمپنی کبھی بھی برطانوی اخبار یا نشریاتی ادارہ نہ خرید سکے گی۔
(3) :وسط مارچ میں برطانیہ میں ایک سکینڈل کی اشاعت سے ایک طرح کا زلزلہ آگیا۔ برطانیہ میں جنازہ اور تدفین (یا Cremation یعنی میت کو آگ میں جلا دینا) کے سارے کام اہلِ خانہ نہیں بلکہ پیشہ ور کمپنیاں کرتی ہیں۔ یہاں 57سال طویل قیام کے درمیان کروڑوں برطانوی افراد کی طرح میں نے بھی ہمیشہ ان کی حُسنِ کارکردگی کے بارے میں تعریفی کلمات ادا کیے۔ مارچ کے وسط میں Humber Side کی پولیس (برطانیہ میں مرکزی یا صوبائی پولیس کا کوئی وجود نہیں؛ چنانچہ ہر کائونٹی (پاکستان کے ایک ڈویژن کے برابر) کی اپنی پولیس ہوتی ہے) نے مخبری ہونے پر ایک Funeral Director کے دفتر پر چھاپہ مارا تو وہ یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہاں 35 افراد کی گلی سڑی میتیں ایک تہہ خانہ میں چھپا کر رکھی گئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ کمپنی نے وفات پا جانے والے شخص کے پسماندگان سے Cremation کے اخراجات (تقریباً تین ہزار پائونڈ) وصول کیے تھے اور قریبی رشتہ داروں کو یہ تسلی دے کر مطمئن کر دیا کہ وہ سارا کام خود ہی کر لیں گے۔ مذکورہ پولیس کے 120 افسر اب اس کام میں مصروف ہیں کہ DNA ٹیسٹ کے ذریعے میتوں کی شناخت کریں۔ ظاہر ہے کہ اب Cremation کا مرحلہ بھی پولیس کی نگرانی میں طے پائے گا۔ جوں جوں شناخت ہوتی جا رہی ہے‘ پسماندگان کو مطلع کیا جا رہا ہے جس سے اُن کے پرانے زخم پھر ہرے ہو رہے ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت مجھے یاد آیا کہ مشہور شاعر ن م راشد (جو اقوام متحدہ سے ریٹائر ہو کر برطانیہ آباد ہو گئے تھے) کی میت کو ان کی وصیت کے مطابق نذرِ آتش کرنے کیلئے قبرستان کے بجائے Crematorium لے جایا گیا تو ماسوائے ان کی انگریز بیوی اور دو بچوں کے‘ مرحوم کے سارے دوست وہاں سے چلے گئے تھے۔
(4): مارچ میں برطانوی وزیر خزانہ (جو چانسلر کہلاتا ہے) نے جو بجٹ پیش کیا اُس میں سے دس لاکھ پائونڈ کی رقم ایک ایسی یادگار یا فوارے اور اردگرد شاندار باغ بنانے پر خرچ کیے جائینگے جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں برطانوی فوج میں لڑنے والے اُن مسلمان سپاہیوں کی یاد کو زندہ رکھے گی جنہوں نے برطانوی تاج و تخت اور پرچم کی حفاظت اور فتح کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی۔ پہلی عالمی جنگ میں ہندوستانی فوجیوں کی کل تعداد 13 لاکھ تھی اور ان میں چار لاکھ مسلمان تھے۔ دوسری عالمی جنگ میں یونین جیک کے تلے افریقہ اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مسلمان سپاہیوں کی تعداد تقریباً دس لاکھ تھی۔ ان دونوں جنگوں میں لڑنے والے کُل مسلم سپاہیوں کی تعداد 55 لاکھ تھی جن میں سے تین لاکھ سے زائد اپنے گھروں کو نہ لوٹ سکے۔ دورانِ جنگ جب چرچل برطانوی وزیراعظم تھا تو اُس نے سرکاری خزانے سے ایک لاکھ پائونڈ نکال کر لندن کے دل‘ Regents Park میں ایک قطعۂ زمین خریدا تھا تاکہ وہاں مسلمان مسجد بنا سکیں۔ 1970-75ء میں لندن کی جامع مسجد کی تعمیر (عرب ممالک کے عطیات سے) ہو گئی جو فنِ تعمیر کا اتنا بڑا شاہکارہے کہ اسے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں