ایسا نہ کریں!

کوئی ایک دم چیخا: '' اس کی چیزیں یہاں سے اٹھا دو‘کرسی لے جاؤ‘ میز پر سپرے کردو...‘‘ابھی چند لمحے پہلے وہ سیٹ سے اٹھ کر باہر گیا اور پھر واپس آکر اس نے خاموشی سے اپنا والٹ‘موبائل اور گھڑی ٹیبل سے اٹھائی اور پوچھنے پر دبے الفاظ میں محض اتنا کہہ کر باہر چلا گیا کہ '' میں ابھی آتا ہوں‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد کسی کولیگ نے اطلاع دی کہ '' اس کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے‘ اسے گھر بھیج دیا گیا ہے‘‘۔
ہم سب حیرت کی تصویر بن گئے۔ کسی نے کہا :' 'یار‘اسے ہمیں تو بتادینا چاہیے تھا‘‘۔ کوئی بولا: ''وہ شاید گھبرا گیا تھا‘‘۔ کسی نے اپنا مشاہدہ پیش کردیا کہ '' حقیقت میں وہ ڈر گیا تھا‘‘۔
وہ چلا گیا...لیکن ہم میں سے اکثر نے کیا کیا؟
اس کو یکدم اچھوت ڈکلئیر کردیا۔ احتیاط ضروری تھی۔ وہ پہلے بھی کررہے تھے۔اس سارے صفائی کے عمل کو غیر محسوس انداز میں بھی انجام دیا جاسکتا تھا۔کیا ہم سب کو ایک دوسرے کو باور کرانا بہت ناگزیر ہوتا ہے کہ اس جسم میں اس مہلک وائرس کی موجودگی کا ثبوت شاید اب ہماری زندگیوں کیلئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
وہ اُس صبح جب دفتر کے لئے نکلا ہوگا ‘اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا۔ اسے تو کھانسی بھی نہیں آتی تھی۔ بخار ہوا نہ ہی چھینک آئی۔ 
وہ سب سے زیادہ صحت مند اور خوش خوراک ہے‘ بلکہ کچھ ساتھی کہتے کہ تمہیں نظر لگ جائے گی۔
اس کی ہلکی سی مسکراہٹ اور دھیمے لہجے میں کسی کے مذاق پر بھی تائید میں کوئی جواب۔جیسے سبھی کو بھلا لگتا۔
وہ گھر گیا اس کی کوشش تھی کسی کو کچھ پتا نہ چلے‘ مگر جنگل کی آگ جیسے پھیلنے کیلئے تیار تھی۔ اس کی شادی کو ابھی چند ماہ ہوئے ہوں گے‘ نئی نویلی دلہن کو کس جگرے سے بتاتا؟ وہ تو خود اندر سے ہل گیا تھا۔ گھر میں اپنی بوڑھی والدہ کا سامنا کرنے سے گریز کررہا تھا۔ ہمت کرکے بڑے بھائی اور بھاوج کو اپنی کیفیت اور احوال بتا ڈالا۔ وہ ابھی دلاسے دینے کے مرحلے میں تھے کہ دفتر سے فون آگیا تمہیں ہسپتال لے جانا ہوگا‘ کیونکہ کورونا کے شکار افراد کو تنہائی میں رکھنا ہوتا ہے۔یہ تنہائی یا آئسولیشن‘ اگر ایک مناسب طریقے اور مریض کے طور پر ہوتی تو شاید زیادہ پریشانی نہ ہوتی۔ اس میں نا صرف متاثرہ فرد قرنطینہ میں جاتا ہے‘ مگر ساتھ ہی اس کے گھروالوں سے بھی محکمہ صحت سمیت تمام متعلقہ سرکاری ادارے نا صرف پوچھ گچھ کرتے‘ بلکہ گھر یا پورا محلہ سیل کردیتے ہیں۔ اس خاندان کو جیسے نظر لگ جاتی ہے اور وہ نظربند بھی ہوجاتے ہیں۔ معمر فرد ‘بچے اور خواتین سبھی محصور ہوجاتے ہیں۔ 
بیٹھے بٹھائے جیسے کوئی جرم سرزد ہوگیا ہو کوئی بہت بڑا گناہ کرلیا۔ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ چھوڑا۔ ایک دو محلے نہیں دور دور تک چرچا ہوگیا ہو۔کوئی اچھوت جیسے اس گھر سے برآمد ہوگیا۔
پچھلے ڈھائی تین ماہ سے حکومت۔اس کے ذمہ دار اور خود میڈیا والے نا صرف احتیاطی تدابیر بتارہے ہیں کہ بچہ کیا بوڑھا سب نے رٹ لئے۔ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں عمل ہو بھی رہا ہے اور نہیں بھی۔
بحث کا سلسلہ تھم نہیں رہا کہ کورونا وائرس ہے یا وبا ہے یا محض کوئی سکرپٹ چل رہا ہے۔
یہ حقیقت ہر کسی کے سامنے کھل چکی ہے کہ پوری دنیا مساوی طور پر‘ بلکہ سہولتوں سے بھرپور ترقی یافتہ ممالک زیادہ متاثر ہیں۔ یہ کسی غریب ملک کے پسماندہ طبقات تک محدود نہیں ہے۔ ہر کوئی بلا امتیاز اس بیماری کا شکار ہورہا ہے‘مگر متاثرہ شحص اور اس کا خاندان اس قدر نشانے پر کیوں آجاتا ہے۔ احتیاط لازم ہے اس سے انکار نہیں۔
بات سماجی رویوں کی ہے‘کیا ہمیں محفوظ رہنے اور دوسروں کو محفوظ رکھنے میں تعاون نہیں کرنا چاہیے؟ دفتر‘ گھر اور محلہ کا خیال رکھنا چاہیے۔
اگر ہم کسی کے غم اور دکھ میں اس کی ڈھارس بندھاتے ہیں‘ اس آفت نما مرض کے لاحق ہونے پر دوسروں کیلئے احساس زندگی کہاں چلا جاتا ہے۔ہم باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں۔دوسرے مذاہب کی مثالیں دیتے ہیں‘ مگر عملی طور پر خود کیا کرتے ہیں؟
ہمارے اندر چھپا یہ خیال کہ کہیں کوئی مجھے نقصان نہ پہنچادے۔ یہی ہمیں اندر سے کمزور کرتا ہے۔
انسان پر اس کے خالق نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ دوسرے کا خیال رکھنا ہے‘ اسے ہم کیوں فراموش کردیتے ہیں؟ 
اس احتیاط کی آڑ میں کسی کو اچھوت کیوں بنا دیتے ہیں۔ دھول سے خود کو محفوظ کرنا غلط نہیں‘ مگر صفائی کرنے والے کے پاس سے گزرتے منہ پر ہاتھ کیوں رکھ دیتے ہیں۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ بے اختیار لاشعوری طور پر ایسا ہو جاتا ہے۔ جس کے سامنے کرتے ہیں‘ اس پر کیا گزرتی ہے؟ یہ جاننے یا محسوس کرنے کی ہم میں سے کسی نے بھی کبھی زحمت نہیں کی ہوگی۔
کیا ہم اس کے ہمدرد یا دوست نہیں ہوسکتے ہیں؟
بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ اپنی چمڑی بچانے کے لیے انسان کچھ بھی کرتا ہے۔ جان بچانا فرض ہے‘ لیکن ایسے حالات میں جب ہر کوئی ایک سی کیفیت میں ہو۔ کیا اپنی زندگی ہی عزیز رکھی جائے؟ ایسا تو نہیں کہ ہماری کوئی غلطی یا خطا کسی کی جان لے لے؟
یہ سچ ہے کہ ہم تھوڑے سے مختلف اورکچھ پیچیدہ حالات سے گزر رہے ہیں‘ کیونکہ ہم میں سے اکثر نے ایسا پہلے کبھی نہ دیکھا ہے۔
موجودہ وقت صرف ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے‘بچو اور بچاؤ کی حکمت ِعملی اپنانے اور احساس کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔
کسی کو دکھ‘تکلیف اور پریشانی کے لمحات میں اچھوت بناکر مزید تنہائی کا شکار نہ کریں‘ اس طرح وہ زندگی سے دُور بھاگے گا۔
یہ زندگی خالق کی دین ہے۔صرف ہماری نہیں‘ سب کی زندگیاں قیمتی ہیں۔کوئی بیمار ہے‘ ہسپتال میں ہے یا گھر میں ہے‘ اسے ہدف نہ بنائیں۔ وہ ہماری ڈھارس کا حق دار ہے۔
پلیز ... اس کے ساتھ ایسا نہ کریں!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں