پائلٹ نے دوسرا اعلان کیا کہ ہم دوبارہ لینڈنگ کرنے جارہے ہیں۔ یہ سن کر مریم کی جان میں جان آئی۔ بیس سالہ مریم کی ڈھائی ماہ پہلے شادی ہوئی تھی۔ اور وہ بیاہ کر لاہور آئی۔ ابھی نئے بندھن کی خوشیاں عروج پر تھیں اور دعوتوں کا سلسلہ بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ کورونا لاک ڈاؤن نے ان خوشگوار لمحات پر جیسے پہرہ لگادیا۔ وہ بھی دوسروں کی طرح گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ۔
لاہور اور کراچی میں عزیز‘ رشتہ داروں سے صرف فون پر خیریت تک محدود ہوگئے ۔ اس کا شوہر بائیس سالہ عرفان خان ‘پٹھان خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ گھروالوں نے کاروبار میں شریک کرکے اس کی جلد شادی کردی‘ تاکہ بہو آنے سے رونق بڑھ جائے ۔ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کو گاڑی میں بٹھاکر ایک آدھ مرتبہ باہر گیا‘ لیکن لاک ڈاؤن کے باعث وہ کہاں جاتے؟ ہر جگہ بند پڑی تھی۔ بڑوں نے بھی احتیاط کرنے کی تاکید کرکے منع کردیا تھا۔ مریم جانتی تھی‘ یہ سب کے ساتھ ہورہا ہے ‘ اُسے والدین کی یاد ستانے لگی کہ کب لاک ڈاؤن کھلے اور وہ کراچی ملنے جائے ۔ اُس کے سسرال والوں نے وعدہ کیا تھا کہ پابندی ختم ہوتے ہی اسے ماں باپ سے ملاقات کے لیے لے جائیں گے ۔رمضان المبارک کا مہینہ آیا ‘مریم نے دعائیں کیں اور پھر وہ دن بھی آگیا ‘جب اطلاع ملی کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے ۔ اندرونِ ملک پروازیں کھول دی گئی ہیں۔ اُس کے شوہر نے وعدے کے مطابق ‘پہلی پرواز پر اس کا ٹکٹ بُک کروادیا اور کہا کہ عید الفطر کے دوسرے روز وہ خود بھی آجائے گا۔ دوپہر ایک بج کر دس منٹ پر پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اُڑان بھری۔ جہاز نے دو بج کر 45 منٹ پر اپنی منزل پر پہنچنا تھا۔ اس پرواز میں زیادہ تر مسافر عید کی چھٹیاں منانے جارہے تھے ۔مریم کی نشست 9 سی جہاز کے اگلے حصے میں تھی۔ طیارہ لینڈنگ کے لیے تیار تھا ۔پائلٹ کی اناونس مینٹ نے جیسے سب مسافروں کو ایک خوشخبری سنادی‘ یعنی چند منٹوں بعد وہ کراچی ایئر پورٹ کی حدود میں ہوں گے ۔ طیارہ آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھنے لگا؛ حتیٰ کہ ایئرپورٹ کا رن وے آگیا‘ لینڈنگ کا عمل شروع ہوا‘ لیکن اس دوران محسوس ہوا‘ جیسے زمین کو چھوتے وقت توازن بگڑ رہا ہے۔ اچانک انجنوں کی بھرپور آواز اور پھر ایک جھٹکے کے بعد طیارہ دوبارہ ہوا میں پرواز کے لیے اوپر اُٹھ گیا۔مسافروں میں بے چینی اور پریشانی واضح طور پر دکھائی دینے لگی۔ کچھ نے شور مچایا اور کئی زیر لب دعائیں مانگنے لگے ۔ پائلٹ نے بڑے پراعتماد لہجے میں اعلان کیا کہ کچھ تکنیکی مسائل کے باعث لینڈنگ نہیں کرسکے ‘لیکن ہم جلد ہی یہ عمل مکمل کرلیں گے ۔مریم ابھی کچھ دیر پہلے اپنے خیالوں میں گم تھی اور کبھی اپنے شوہر کی باتیں اسے یاد آرہی تھیں ‘ کبھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ گھروالوں سے کیا کیا باتیں کرے گی؟ اچانک نئی صورتِ حال نے جیسے اس کا دماغ ماوف کردیا‘ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا ہونے والا ہے ۔ اس کے ذہن میں کورونا وباکا دور اور ہر قسم کی احتیاطی تدابیر چلنے لگیں‘ وہ اکیلی تھی‘ اس لیے بھی تھوڑا سا گھبرا رہی تھی۔ دل میں آیا کہ کیوں تنہا اس سفر کے لیے آمادہ ہوگئی۔ اس کے شوہر نے کہا تھا کہ انتظار کرلو‘ عید کے بعد اکٹھے چلے جائیں گے ‘ لیکن وہ جذباتی ہوگئی تھی‘ اسی لیے سسرال والوں نے اس کی خوشی دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا۔ مریم کو شدت سے محسوس ہورہا تھا کہ کاش! اس سفر میں عرفان اس کے ساتھ ہوتا‘اسی دوران ون سی نشست پر بیٹھے ایک شخص نے آواز دے کر ایئر ہوسٹس سے پوچھا:محترمہ کیا معاملہ ہے ؟اُس نے مختصر جواب دیا: آل از ویل سر‘ ہم جلد لینڈ کرلیں گے ۔سیٹ فائیو سی پر بیٹھے نوجوان اور مریم تک بھی یہ جواب پہنچا۔ طیارے نے ایئر پورٹ کا ایک بڑا چکر لگایا اس دوران کنٹرول ٹاور سے پائلٹ کی کیا بات ہوئی؟مسافر اس سب سے لاعلم رہے ۔اچانک جہاز نیچے آیا‘ اس بار ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انجن بند ہوگئے ہیں اور وہ گلائیڈنگ کررہا ہے ۔ چند مسافروں نے کھڑکی سے جو منظر دیکھا تو وہ خوفزدہ ہوگئے ‘ کیونکہ ایئرپورٹ اور رن وے کافی دور تھا‘ جبکہ طیارہ زمین کے بہت قریب آچکا تھا۔مریم کی نشست جہاں تھی‘ انہیں باہر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ‘ دوپہر کا وقت ہونے کے باعث کھڑکیاں بند تھیں۔ انہیں پچھلی جانب سے مسافروں کی آوازیں اور چہ میگوئیاں سنائی دینے لگیں‘ لیکن کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ ایک جھٹکے اور پھر زور دار دھماکے سے جہاز گرگیا۔ ہر طرف چیخ وپکار اور شور تھا‘ جس کے ساتھ ہی طیارے کے پچھلے حصے میں آگ لگنے سے دھوئیں کے بادل فضا میں اُٹھے ۔مریم کی آنکھ کھلی اس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنی سیٹ بیلٹ کھولی اور ہمت کرکے اوپر سے باہر چھلانگ لگادی۔ اُس کے سر پر کوئی سخت چیز لگی‘ جس سے شدید زخمی ہوکر وہ بے ہوش ہوگئی۔
جہاز کے پچھلے حصے میں بیٹھے مسافروں کی اکثریت آگ کی لپیٹ میں آگئی اور کوشش کے باوجود کوئی بھی جان نہ بچا سکا‘ سب موت کی وادی میں چلے گئے ۔سیٹ نائن سی کی مسافر مریم نے جرأت اور بہادری دکھائی‘مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں چھلانگ لگارہی ہے ۔ اس کے سر پر لگی چوٹ اتنی شدید تھی کہ زیادہ خون بہنے اور بروقت طبی امداد نہ مل پانے کے نتیجے میں جان کی بازی ہار گئی۔کورونا وبا کے خوف سے نکل کر اپنوں میں عید کی خوشیاں منانے گئے یہ سب اور مریم بھی‘ جس نے نئی زندگی کا آغاز کیا تھا‘ بالکل لاعلم تھے کہ ان کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہو گا ۔
پرواز پی کے 8303 کیسیٹ نمبر ون سی اور فائیو سی کے مسافر بچ گئے‘ مگر نائن سی کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔