الٹی گنگا!

گنگا کنارے رہنے والے ایک شخص کی بیوی اکثر بات بے بات اس سے اختلاف کرتی اور وہ اپنی بیگم کا مزاج سمجھ گیا تھا ‘اس لیے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن کسی مسئلے پر خاتون نے جھگڑا شروع کردیا اور غصے میں کہا کہ میں تو اپنے میکے جارہی ہوں‘ شوہر فوراً بولا: ابھی جاؤ۔ بیوی نے کہا: اب میں نہیں جاؤں گی۔وہ شخص چاہتا تھا کہ یہ کچھ روز والدین کے ہاں گزار آئے تاکہ کچھ سکون ہو‘اس نے پھر کچھ ایسا کہاں کہ نتیجے میں وہ میکے کی تیاری پکڑ کر نکل کھڑی ہوئی‘ وہ ساتھ جارہا تھا‘ وہ ابھی گنگا کے کنارے چلتے جارہے تھے ‘ کہ راستے میں پھر کسی بات پر بیوی نے تنازع کھڑا کردیا اور جذباتی انداز میں کچھ ایسی حرکت کرڈالی کہ توازن بگڑنے پر دریا میں گر گئی‘ اردگر دیکھنے والے لوگ بھی جمع ہوگئے ‘ اس کے شوہر نے دریا کی روانی کی مخالف سمت میں جاکر خاتون کو ڈھونڈنا شروع کر دیا‘ لوگوں نے کہا بھئی وہ بہاؤ کی سمت میں ڈوبی ہوگی‘ اس پرشوہر بولا : نہیں‘ مجھے اس کے مزاج کا علم ہے ‘ اس کی گنگا الٹی بہتی ہے ‘ وہ ادھر ہی کہیں ہوگی۔
یہ پس منظر تو شاید الٹی گنگا بہنے کا بتایا جاتا ہے ‘ لیکن ہمارے مزاج بھی کچھ ایسے ہی ہوچکے ہیں۔ اختلاف اگرچہ بنیادی حق ہے‘ مگرضروری نہیں کہ ہر بات سے اختلاف کریں۔ کسی نے بھلے کی بات کی تو اس پر بھی انکار کردینا۔ کسی کام سے روکنا یا پابندی لگانے کی کوئی مصلحت ہوتی ہے ‘ پھر بھی اسے نہ ماننا اور ضد میں ردعمل ظاہر کرنا‘ یہ عادت بچوں کی نفسیات کا حصہ ضرور ہے ‘ البتہ اب بڑوں اور پختہ سوچ رکھنے والے افراد نے بھی جیسے اپنا وتیرہ بنالیا ہے کہ اختلاف ضرور کرنا ہے ۔
کورونا کی آمد کچھ پابندیاں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہوئی۔ کوئی زیادہ مشکل کام یا فارمولا نہیں تھا جسے سمجھنے یا اس پر عمل میں کسی قسم کی دقت پیش آتی۔ صرف دو تین باتوں پر کاربند رہنا یا کہہ لیں ان کا خیال رکھنا ہے ‘ منہ ماسک سے ڈھانپ لیں‘ کسی بھی جگہ جانے سے پہلے اور جاکر سینی ٹائیزر یا صابن سے ہاتھ دھولیں۔ دوسروں سے کچھ فاصلہ رکھیں‘ میل جول میں ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کریں۔ سفر کے دوران دو افراد کو بائیک اور کم از کم تین کو گاڑی پر سوار ہونے سے گریز کی تاکید کی گئی تھی۔ اس سے زیادہ کی تلقین کسی نے بھی نہیں کی ہوگی۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ غیر ضروری گھروں سے نہ نکلا جائے ۔ یہ بھی ان افراد کے لیے تھا جنہوں نے باہر کام کرنے نہیں جانا خصوصاً خواتین‘ معمر افراد اور بچے جنہیں سکولوںکی بندش کے باعث گھروں تک محدود کردیا گیا ہے ۔ خریداری اور کسی بھی عوامی رابطے اور پبلک ڈیلنگ والی جگہ پر فاصلہ رکھنے کے لیے نشانات لگانے کیلئے کہا گیا۔ اوپر بتائی گئی زیادہ پابندیوں کو اکثریت نے ملحوظ نہ رکھا یا کہہ لیں کہ خاطر میں نہیں لائے۔ سماج میں ہر طرح کے طبقے نے کورونا کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا‘ کیونکہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اب بھی ابہام کی سی کیفیت ہے ۔
اختلافی نوٹ کے طور پر اس سب کو کسی سازشی نظریے کا حصہ ہی قرار دیا جارہا ہے ۔ لاک ڈاؤن نے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کیا۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہونے لگے ۔ حکومت نے صورتحال بھانپتے ہوئے لاک ڈاؤن کو بتدریج نرم کرتے ہوئے تقریباً ختم کردیا۔ اور پھر ہم سب نے عید کی تعطیلات میں دیکھ لیا‘ جیسے کسی قید سے رہائی ملی ہو۔اگرچہ لوگوں نے عمومی تاثر ایسا ہی دیا کہ کبھی ایسی عید نہیں دیکھی‘ ہاں واقعی ایسے حالات بھی پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں گے ۔ لیکن تین چار دنوں کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں صرف پنجاب میں حادثات اور ان میں ہلاکتوں اور اس کے ساتھ سڑکوں پر آنے والی ٹریفک اس قدر زیادہ تھی کہ پٹرول پمپس کی بندش کچھ اور کہانی بیان کرگئی۔
ہم سب بھول گئے کہ کہا کیا گیا ہے اور ہم نے کرنا کیا ہے ۔ کسی نے ماسک نہیں پہنا‘ عمومی تاثر یہی ملا کہ کورونا ختم ہوگیا۔ جس انداز میں لوگ باہر نکلے اس میں اطمینان سے زیادہ کسی غصے کے جذبات کا اظہار زیادہ دکھائی دے رہا تھا کہ ہمیں کیوں بند کیا تھا۔ ایسی کی تیسی‘ ہمیں روک کے دیکھاؤ۔کبھی ہم نے غور کیا کہ بات نہ ماننے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ چاہے وہ کسی کی بھی ہو۔ گھر میں بڑے ہوں‘ درس گاہوں میں استاد ہو‘ گلی محلے کا کوئی بزرگ ہو‘ دفتر یا کام کی جگہ پر باس ہو‘ اختلاف کرنے میں جیسے ایک مزہ بھی ہے ۔
ہم کیوں نہیں مانتے ‘ انکار یا اختلاف زیادہ کیوں کرتے ہیں۔ صرف اسی وقت کیوں بات تسلیم کی جاتی ہے جب ڈنڈا یا مجبوری کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو۔ ہیلمٹ پہننے اور سیٹ بیلٹ لگانے کی عادت صرف چالان سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سزائیں دی جائیں‘ جرمانے کئے جائیں پھر ہی کوئی پابندی مانیں گے ۔ یہاں ریاست کی کمزوری صاف دکھائی دیتی ہے ۔ جب عوام نے بتادیا کہ ہم اس صورت میں بات مانتے ہیں پھر کیوں نہ وہی طریقہ اختیار کیا جائے ؟ تاکہ کسی کو تنگی بھی نہ ہو‘ کیونکہ گلے شکوے تو اب بھی ہمارے ختم نہیں ہوتے ‘ کم ازکم اشارہ توڑنے کی سزا معلوم تو ہو۔
اگر ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ گنگا الٹی ہی بہانی ہے ‘پھر شاید زیادہ بڑی بڑی باتیں کسی بھی فورم پر کرنے کی عادت ترک کرنا ہوگی‘ کیونکہ کورونا والے معاملے میں پڑھے لکھے ‘ دانشور‘ تجزیہ کار اور اینکر حضرات بھی اس اختلافی بہاؤ میں بہتے دکھائی دیئے ۔ اگر اس معاملے پر ہم قوم بن کر نہیں دکھا پائے تو کتابوں اور باتوں میں بھی اس کا تذکرہ زیادہ بڑھ چڑھ کر کرنے کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں۔ ایک بھیڑ نے نکلنا ہے پھر وہ سیدھی چلے یا الٹی‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں