سیاست ایک ایسا کھیل ہے ‘ جس میں پیچیدگیوں کے ساتھ بڑے خطرے بھی ہوتے ہیں‘ مضبوط اعصاب والے ہی اسے کھیل پاتے ہیں۔ اس کی باریکیوں کو سمجھ نہ پانے والوں کیلئے یہ کھیل کبھی کبھار فضول اور بے معنی سا ہو جاتا ہے ‘مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔اس میں بہت کچھ غیر معمولی ہوتا ہے ‘ جیسا کہ جوڑ توڑ‘ سازش‘ وعدہ خلافی‘ دشمن سے ہاتھ ملانا‘ اپنوں کو لاعلم رکھنا‘ ذاتی مفاد کو ترجیح دینا۔ اگر تھوڑا غور سے دیکھیں تو ساری سیاست بڑی دلچسپ اور طلسم ہوشربا جیسے کسی قصے جیسی نظر آئے گی۔ ایسے ایسے واقعات کہ سن کر واقعی ہوش اُڑ جائیں۔
ملک میں اس وقت سیاست کے اصل کردار منظر سے ہٹا دیئے گئے ہیں یا خود ہٹ گئے ہیں۔ دو بڑی سیاسی قوتوں کے سالار پس پردہ چلے گئے ہیں اور اپنے متبادل سامنے لے آئے ہیں ۔ سندھ والوں کے پاس ابھی حکمرانی بچی ہوئی ہے اور اپنا جانشین ڈرائیونگ سیٹ پر پورے اعتماد سے بیٹھایا ہوا ہے ‘ اسے گاڑی چلانا بھی سکھادی گئی ہے ‘ صرف لائسنس ملنا باقی ہے ۔ مگر لاہور والے میاں صاحبان‘ جنہیں بڑی سیاسی قوت شمار کیا جاتا تھا‘ اُن کے ساتھ تھوڑا معاملہ تھوڑا مختلف جا رہا ہے ۔ عدالتوں سے سزائیں بھی ملتی رہیں‘ جیل بھی گئے ‘ ضمانتیں ہوجاتی رہیں اور رہائی بھی ملتی رہی۔ کبھی جبری جلاوطنی ہوئی تو کبھی خود باہر چلے گئے وہاں علاج کتنا ہورہا ہے ‘ یہ شاید اب عوام‘ میڈیا اور ان کے اپنے کارکنوں کا بھی موضوع نہیں رہا‘ البتہ بڑے میاں صاحب کے بغیر ملکی سیاست پر گفتگو نہ صرف ادھوری خیال کی جاتی ہے۔ میاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ ان کے چھوٹے بھائی‘ بیٹی اور بھتیجا متبادل کے طور پر ملک میں موجود ہیں‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہیں بھی کسی نہ کسی مقدمے نے منظر سے ہٹایا ہوا ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کے پاس اگرچہ قائدِ حزب اختلاف کا اہم عہدہ ہے لیکن ساری ارینجمنٹ کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ بھی اپنے متبادل میدان میں لانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کے ساتھ بڑا المیہ یہ ہے کہ پارٹی میں بلکہ حکومت میں بھی اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود بڑے میاں صاحب کا متبادل نہ بن پائے‘ انہوں نے لیڈروں والا جوشِ خطابت بھی اختیار کیا‘ حکمرانوں جیسا دھڑلے والا انداز بھی اپنایا‘ عوامی روپ بھی دھارا‘ اس سب کے باوجود انہیں وہ مقام نہ مل پایا۔ اُدھر بظاہر صبر شکر کا جذبہ دکھائی دیتا ہے‘ مگر حقیقت ایسی نہیں ہے۔ خاندان کے اندر ایک عرصے سے خصوصاً بیٹی کے سرگرم ہونے کے بعد سے مسلسل یہ اشارے ملتے رہے ہیں اور بالکل درست بات ہے کہ انہیں متبادل امیدوار کے طور پر تصور کیا گیا ہے۔ بڑے میاں صاحب نے عارضی طور پر بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ‘ ماسوائے پارٹی کی سربراہی حوالے کرنے کے‘ جو کہ اس وقت کی اہم ضرورت تھی‘ کیونکہ خاندان سے باہر کسی کو سپرد کرنے سے سیاسی نقصان کا قوی امکان موجود تھا۔ رہا معاملہ باقی کی ٹرم کیلئے وزارتِ اعظمیٰ نہ دینے کا‘ توکہا یہی جاتا ہے کہ پنجاب سنبھالنے کیلئے انہوں نے خود ذمہ داری قبول نہ کی۔ ایک تاثر یہ بھی دیا گیا کہ عارضی وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تھے ۔ بہرکیف سیاست میں عہدہ اتنی ظالم شے ہوتی ہے کہ کوئی چھوڑتا نہیں چھڑایا جاتا ہے ۔کیا وہ وزیراعظم بن کر پنجاب نہیں دیکھ سکتے تھے ‘یا انہیں زیر غور ہی نہیں لایا گیا‘ اس کے بے شمار جواز پیش کئے جاسکتے ہیں۔
اقتدار کی تاریخ بڑی کٹھن‘ تکلیف دہ اور ظلم سے بھری ہے ۔ تخت پر بیٹھنے اور پھر اس سے کبھی نہ اُترنے کی خواہش تقویت پکڑ لیتی ہے ۔ بڑے میاں صاحب نے سیاست میں'' جتنی محنت کی‘‘ اور'' عوام کیلئے جتنا کام کیا‘‘ اس کے بعد آسانی سے ایک طرف ہوکر بیٹھ جانا بھی عجب سا لگتا ہے ‘ کیونکہ جس نے کچھ کیا ہوتا ہے وہ اس کے بدلے کچھ اور کا تقاضا کرتا ہے ‘ یہ اس کا حق بھی ہوتا ہے ۔تاہم بڑے میاں صاحب کٹھن مراحل میں بھی اپنا ذہن دوڑاتے رہتے ہیں‘ جس کے باعث وہ کسی حتمی نتیجے یا فیصلے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کے مشیر بہت زیادہ اور اچھے ہیں‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ دہری شہریت والے کم ہی ہوں گے ۔ اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ایسے صلاح کار کا دھیان باہر ہی لگا رہتا ہے ‘ حالانکہ میاں صاحب خود بھی ملک میں رہتے ہوئے زیادہ توجہ ملک سے باہر ہی رکھتے تھے‘ ان کے تیسرے دور کا جائزہ لیں تو بیرونِ ملک کے دوروں کی تعداد پہلے سے کافی زیادہ تھی۔
کہتے ہیں‘ بڑے میاں صاحب نے چھوٹے بھائی کو ایک بار پھر ایسا پیغام بھیجا ہے کہ ان کی طبیعت حقیقت میں بگڑ گئی ہے۔ پیغام کے مندرجات کچھ ایسے ہیں کہ بیٹی کو آئندہ کیلئے وزیراعظم کا امیدوار اور انہیں ایک بار پھر پنجاب کی ذمہ داری سونپنے کا عندیہ دیا ہے ۔بظاہر گھر میں نظر بند مگر سب امور پر نظر رکھنے والی بیٹی کی اباجی کو فراہم کی گئیں معلومات اس پیغام کی وجہ ہو سکتی ہیں ۔ ایسی اطلاعات سے واضح دکھائی دیتا ہے کہ دونوں بھائیوں میں اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہے ۔ سیاست میں کسی حد تک اعتبار کرنا پڑتا ہے ‘اگر وہ ختم ہوجائے تو پھر راستے جداکرنا پڑ جاتے ہیں۔ یہاں ایسا کرنا مشکل ہے‘ لیکن حکمت عملی کا تقاضا کہہ رہا ہے کہ چھوٹے کو محدود کردو‘ پارلیمنٹ میں سیالکوٹ اور لاہور کے خواجہ صاحبان سے کام چلایا جارہا ہے ۔ کچھ کام مری والے سابق وزیراعظم اور نارووال والے صاحب کرلیتے ہیں‘ مگر ان سب کو رپورٹ نظر بند بیٹی ہی کو کرنا ہوتی ہے ‘ نہ کریں تو اس کی ہم نام نمائندہ روزانہ کی بنیاد پر فرض پورا کررہی ہوتی ہے ۔سیاست میں کوئی چال چلنا یا کسی سازش کی بُو سونگھ کر اسے ناکام بنانا‘ کوئی ماہر کھلاڑی ہی کرسکتا ہے ۔
سندھ والی بی بی کا برخوردار میدان خالی دیکھ کر بھرپور کھیل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ شاید اسے بھی اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ وہ اپنی پرفارمنس سے ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اگلی بار دی جائے ‘ کیونکہ دوسری جانب میاں صاحبان منظر سے غائب ہیں ‘ ان کی غیر حاضری کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں برخوردار کامیاب دکھائی دے رہا ہے ۔ لوگوں کو جب نظر ہی ایک متبادل آئے گا‘ دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں جائے گی‘ لیکن ایسا محض سندھ والوں کا خیال ہوسکتا ہے ‘ جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے وہ نہ جانے کیا پلان بنا کر بیٹھے ہوں‘ کون جانتا ہے؟ تاہم موجودہ سیٹ اپ پر سوالیہ نشان لگناشروع ہوگئے ہیں اور اب بات پرفارمنس سے کچھ آگے بڑھ چکی ہے۔ موجودہ حالات کو مزید تین سال تک گھسیٹ کر لے جانا ہر لحاظ سے مشکل کام بلکہ ایڈونچر دکھائی دینے لگا ہے ۔
حکومت کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم سابق حکمران جماعت سے مل رہا ہے ‘ لیکن اس کی بدقسمتی دیکھیں‘ قیادت اور خاص طور پر پرفارم کرنے والے کھلاڑی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں‘ انہیں دوسری طرف مصروف رکھا ہے ‘ چھوٹے میاں صاحب پر نگاہیں اٹھتی ہیں لیکن وہ خود دکھائی نہیں دیتے ۔ وہ وطن واپس بھی اسی لئے آئے تھے کہ اپنا حقیقی رول ادا کریں گے ‘ یہاں انہیں مقدمات سے زیادہ تھوڑے سے مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پارٹی کی قیادت سنبھالنے میں جیسے دقت محسوس کررہے ہیں‘ وہ ماضی میں کبھی اتنے نروس دکھائی نہیں دیئے جیسے اب ہیں۔وہ اپنے مخالف پر حملے کرنا بھی بھول چکے ہیں۔ایک عجیب سے ذہنی انتشار کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کیاچھوٹے میاں صاحب ایک بار پھر خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگے ہیں؟شاید انہیں وہ مقام ملتا نظر نہیں آرہا جس کا وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں یا کہہ لیں ان کا سیاسی حق بنتا ہے ۔
سیاست واقعی ناقابلِ فہم ‘ ناقابلِ یقین اورظالم کھیل ہے جس میں آئندہ کا منظر نامہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ آج حکمرانی کرنے والے کل اقتدار سے باہر بیٹھے عوام کے حقوق کی دہائیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں ماضی کی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا وہ پرفارم نہ کرنے پر میدان سے باہر ہوجاتے ہیں اور پھر نیا آنے والا وہی باتیں دہراتا سنائی دیتا ہے ۔ عوام اب کسی نئے چہرے کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں‘ وہ کسی فیصلے کا انتظار کرتے ہیں‘ معلوم نہیں وہ گھڑی آگئی ہے یا ابھی نہیں آئی لیکن تیاریاں بہت ہونے لگی ہیں۔