ایک دوست نے گزشتہ دنوں پہلے قرنطینہ میں بیٹھے پرانی یادوں کی پٹاری سے کچھ باہر نکالنے کا جتن کیااور ایک خط ارسال کیا‘ اس کے مندرجات کچھ ذاتی اور کافی سارے عام مشاہدات اور تجربات پر مبنی تھے ‘ جنہیں اپنے الفاظ میں ڈھال کر پیش کر رہا ہوں:۔
''ہم یہاں تک زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد بھی ویسے ہی تھے ‘ ہم نے مڑ کے ان تمام راہوں پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کی‘ کہاں اس سانجھی مسافت کے دوران ہم سے غلطیاں یا بداعتمادی کا مظاہرہ ہوا۔سنتے آئے تھے کہ سفر اور مشکل یا تکلیف میں اپنوں یا دوست کا پتا چل جاتا ہے ‘ آزمانے پر بہت حد تک بات درست ثابت ہوئی۔ دونوں نے نصف زندگی کے اس سفر کا بغور جائزہ لیا‘ جس میں دیکھنے ‘ سننے والے کیلئے کچھ خاص مقامات نہیں آئے ‘ یعنی جہاں بڑے اچھے ‘ خوشگوار‘ یادگار کہہ لیں قابل ذکر لمحات کا تذکرہ ملے ۔ ایک عام آدمی اور جس کے مزاج میں کسی قسم کا مختلف پن یا اس طرح کہیں کہ بڑے رومانوی طبیعت کے مالک‘ دوسروں کو متوجہ کرلینے والی پُرکشش شخصیت یا پھر کوئی طنزومزاح سے بھرپور کردار نہیں پایا جاتا ہے ‘ وہ اگر مرد ہے تو سیدھا والدین کی فرمانبرداری کا حق نبھاتے نبھاتے اس نئے ہمسفر کی تابعداری میں لگ جاتا ہے ‘ عورت کا معمول بھی بچے ہونے پر الگ سا ہوجاتا ہے ‘ اس کی توجہ کا محور اور ترجیحات بدل جاتی ہیں؛اگرچہ یہ کہانی ''ایک دفعہ کا ذکر ہے‘‘سے شروع ہوکر ''پھر وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے‘‘والی ہرگز نہیں رہتی‘ اتار چڑھاؤ پر مبنی قصے جابجا سننے اور دیکھنے میں ملتے رہتے ہیں۔لگی بندھی توقعات کچھ پر پورا اترگئے تو وقتی راحت کا سامان پہنچادیا ‘وگرنہ اچھا بُرا سب ایک پلڑے میں ڈھیر کی صورت رکھ کر کسی ایک جملے میں مل جاتا۔ بچوں کی فرمائشیں بھی پوری کرنے کی اسی قدر کوشش کرتے رہے ‘ جتنی کوئی بھی عام آدمی کرتا ہے ۔ وسائل کے مطابق ‘اپنا آپ پیش بھی کیا‘ کبھی ستائش ہوگئی‘ کبھی کسی کمی رہ جانے کے نتیجے میں نظروں کا تیکھا پن یا لہجے کی تلخی سکون قلب چھیننے کیلئے کافی ہوتی ہے ۔مرد کون سے دودھ کے دُھلے ٹھہرے ‘ اندر کے چڑچڑے پن کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں‘ دوسرے کیلئے اتنا ہی تکلیف پہنچانے کا سامان بن جاتے ہیں۔ عورت بھی صبر شکر کرکے کون سا بیٹھی ہوتی ہے ‘ جلد وقت آنے پر جوابی حملے میں احساس دلادیا جاتا ہے‘ بلکہ ''تمہیں برداشت کیا‘‘جیسے صاف لفظوں میں جتلادیا جاتا ہے ؛حتیٰ کہ آخری جملہ ''تم نے کیا کیا ہے میرے لیے ؟‘‘بس اتنے میں ٹھیک ٹھاک طبیعت صاف ہوجاتی اور اندر سے ایک توبہ کا نعرہ نکل جاتا ہے کہ آئندہ سے محتاط رہیں گے ‘ لیکن کیا کریں دل جلے جو ٹھہرے ان کا وتیرہ ہے ‘ وہ باز کہاں آنے والے ہیں‘ زہر آلود لفظوں کے تیر چلاتے رہتے ہیں۔اپنے اس سفر میں کچھ مقامات پر اچھے لمحات کو یادگار بناکر قید کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ لیکن چاہ کر بھی جب پیچھے دیکھتے ہیں تو ایسے تمام مناظر کچھ دھندلے دکھائی دیتے ہیں۔انسان فطری طور پر تھوڑا سا جذباتی واقعہ ہوا ہے ‘ اسے دکھ‘ تکلیف اور تلخ یادوں کے سہارے شاید زندگی گزارنے کی عادت سی ہوتی ہے ۔ اس سفر کا کوئی بھی فریق ہو‘ اس کے ساتھ اچھے خوشگوار واقعات کی کمی ملے گی‘ وہ چاہتے ہوئے بھی حسین یادوں کا تذکرہ نہیں کرپاتا۔شاید ہم سب یا اکثریت نے زندگی کی تلخیاں جھولی میں ڈالے پھرنے کو مشن بنالیا ہے ۔ خوش رہنا اور دوسروں تک اس کیفیت کو کسی طریقے سے پہنچانے میں نہ جانے کیوں دقت محسوس ہوتی ہے ۔ ہمیں تو جیسے کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر بھی مصنوعی پن کا گمان ہونے لگتا ہے ‘ اس کی اصلیت کو نگاہیں پرکھنے میں لگ جاتی ہیں۔آپس میں پیار کا اظہار تو شاید خیالی بات ہو‘ اچھی اچھی باتیں کرنے کے لیے بھی جیسے الفاظ کہیں آگے پیچھے ہوجاتے ہیں۔گھر میں ایک دوسرے کا خیال بھی واجبی سا رکھتے ہیں۔کیسے ہو؟ ٹھیک ہوں۔ کھانا کھا لینا‘ کھالوں گا۔دوا لی ہے ؟ لے لوں گی۔ اللہ اللہ خیر سلا‘ اتنے میں سب خوش۔نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں ہوتا‘ نہ کوئی خوشی ہوتی ہے ‘نہ ذہنی سکون‘ نہ دلی طمانیت جیسے تمام جذبات انسان کے اندر موجزن نہیں ہوپاتے ۔ہاں اتنا ضرور ہے ‘ دوسرے سے متعلق بُراگمان ضرور پیدا ہوتا ہے ‘ وجہ بداعتمادی‘ ہم صرف اتنا کرلیں کہ گمان اچھا کرلیں تو آپس میں زیادہ تعلق کی نوعیت نہ بگڑے ۔ یہ گھر کے اندر اور باہر سب جگہ کرنا ہوگا‘ ایسا نہیں کہ یہاں بدگمانی اور وہاں سب پر مکمل بھروسہ۔یہ سوچ کہ فلاں فلاں میرے بارے میں اچھا نہیں سوچتا‘ میرے لیے کچھ نہیں کرسکا‘ میری بیماری‘ میرے عزیز کی فوتیدگی پر نہیں آیا‘ میں نے دعوت دی شرکت کیوں نہیں کی؟اگر صرف اتنا سوچ لیں کہ اس کو کوئی کام پڑگیا ہوگا‘ کوئی مسئلہ پیش آگیا ہوگا‘ کوئی بھی وجہ بن گئی ہوگی۔ ایسے میں دل اس کے بارے میں بُرا نہیں ہوگا۔گھریلو زندگی میں بھی گمان کی پرواز بلند رکھنے سے ہی گزارا ہوتا ہے ‘ وگرنہ مشکلات بڑھ جاتی ہیں‘ درگزر کے در کھولنے پڑتے ہیں‘ نہیں تو مصائب کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ وقتی طور پر دوسرے کی غلطی نظرانداز کردیں‘ اسی حالت میں اسے قبول کرلیں‘ کچھ نہیں ہوتا اگر اس نے کوئی بہت بڑا غلط کام کردیا‘ زندگی اس سب سے بھری پڑی ہے ۔ کسی غلطی کو آئندہ درست کرنے کی کوشش‘ درحقیقت خود کی اصلاح کے جذبے کا واضح اور کھلا اظہار ہے ۔ہم کیوں نہیں دوسروں کو معاف کردیتے ‘ کیوں چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رکھ کر بیٹھے رہتے ہیں؟ آگے دیکھنے کی بجائے کیوں بار بار پیچھے مڑ کر نگاہیں ماضی سے تلخ یادیں کریدتی رہتی ہیں؟ ذہن کی خلش کو بڑھنے کیوں دیتے ہیں؟زندگی کے سفر کی گاڑی میں بوجھ زیادہ لادھ لیا ہوتا ہے ‘ سفر کرنا نہایت دشوار ہوجاتا ہے ‘ دل کی بھڑاس فوراً نکال دیں‘ من ہلکا کرلینے سے گاڑی کا بوجھ کم ہوجائے گااور وہ اگلی منزل کا نا صرف تعین کرلے گی ‘بلکہ سفر آسان ہو جائے گا۔اپنا اور سب کا خیال رکھنا‘‘۔(آپ کا خیراندیش)