آج اسے ہسپتال میں آئے بائیس روز ہوگئے تھے ‘اس نے بیڈ پر کبھی اتنا زیادہ وقت نہیں گزارا تھا‘ وہ بہت محنتی اور مشقتی زندگی کا عادی رہا تھا ۔ کبھی کوئی بڑا مرض لاحق نہ ہوا‘ سب نے ہمیشہ رشک سے دیکھا۔ دوسروں کی خدمت چونکہ اس کی ذمہ داری میں شامل تھی اسی وجہ سے مزاج میں تابعداری اور فرمانبرداری بھری پڑی تھی ۔ وہ کم عمر ہی تھا جب اس نے دفتر میں آفس بوائے کے طور پر ملازمت اختیار کی۔ اس کے اچھے اخلاق اور سب کے کام آنے کی طبیعت نے اسے ہردل عزیزبنا دیا ۔دفتر میں مختلف معاملات پیش آتے‘ جب کبھی اس سے پوچھتے تو فوری اطلاع فراہم کردیتا‘ لیکن جہاں کسی کا پردہ رکھنا مقصود ہوتا‘ لاعلمی ظاہر کردیتا یا کوئی اور موضوع چھیڑدیتا۔ جب اس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو فطری طور پر اُس کی خوشی دیدنی تھی۔ ہم اسے اکثر بچے کے بارے میں پوچھتے ‘ وہ بڑی توجہ سے تفصیلات بتاتا۔ اب عمران کے مزاج میں نسبتاً پختگی آگئی تھی ‘مگر وہ عام انسانوں کی طرح حالات کے گلے کم کرتا اور صبر شکر جیسے بزرگوں والے کلمات زیادہ بولتا ہوا ملتا۔
کورونا کی باتیں اور خوف چلتے چلتے اس کے دفتر تک پہنچ گیا تھا‘ وہ کبھی کبھار کولیگز سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش بھی کرتا لیکن پھر ساتھ ہی کہہ دیتا: اللہ خیر کرے گا۔ یہ باتیں بظاہر بڑوں والی تھیں۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا مگر کسی ایک ملازم کا ٹیسٹ مثبت آنے پر دیگر کے ٹیسٹ کرائے گئے تو عمران بھی مثبت والوں میں تھا‘ اور یہ خبر بھی جیسے جنگل کی آگ کی طرح دفتر میں پھیل گئی۔ بتایا جارہا تھا کہ اسے ایکسپو سنٹر بھیج دیا گیا ہے ‘ جہاں اسے قرنطینہ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ جب رابطہ کیا گیا تو وہ بالکل پریشان نہ تھا اور نہایت تحمل سے ہر کسی کے فون پر جواب دیتا رہا کہ ٹھیک ہوں‘ مجھے کوئی بخار‘ نزلہ یا کھانسی تک نہیں‘ یہاں کوئی دوا تک نہیں دی جارہی‘ بس میری قسمت میں یہاں پہنچنا لکھا تھا اس لیے آگیا ہوں۔ اس قرنطینہ میں ایک ایک کرکے دن گزرتے جارہے تھے ‘ جب اس کا پہلا ٹیسٹ لیا گیا تووہ پھر پازیٹو آیا‘ اب اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت لگا کہ شاید اس معاملے کو وہ سنجیدگی سے نہ لے لے کیونکہ ایسا ہی بتایا جارہا ہے کہ یہاں تو کچھ نہیں ہوتا یا پھر متاثرہ شخص خاموشی سے کورونا وائرس کے جال میں آجاتا ہے ۔عمران اب بھی ویسے ہی رہا‘ اسے یہ انتظار رہا کہ کب اس کی باری آئے گی اور وہ صحت یاب قرار دیئے جانے پر گھر بھیج دیا جائے گا۔ دفتر کے دوسرے کچھ ساتھی بھی ہسپتال میں تھے ‘ ان میں سے اکثر اس مرض کے خوف یا پھر کہہ لیں قرنطینہ کی تنہائی سے تنگ آچکے تھے ‘ لیکن عمران مسلسل اپنے آپ کو اندر سے مضبوط کئے ہوئے تھا۔ اسے پہلے اپنی والدہ ‘ اہلیہ اور ڈیڑھ سال کے بچے کی فکر تھی ‘لیکن جیسے ہی ان کے ٹیسٹ کلیئر آئے ‘ اسے ایک طرح سے اطمینان ہوگیا۔ ہاں اتنا ضرور تھا کہ بیگم اور بچوں کو یاد کرکے اداس ہوجاتا‘ لیکن کسی سے تذکرہ نہیں کرتا تھا۔
ہسپتال میں چودہ روز گزر گئے ‘ اسے کسی نے بتایا تھا کہ قرنطینہ کا عمل چودہ روز میں مکمل ہوجاتا ہے ‘ اسے اگلے ٹیسٹ اور اس کے رزلٹ کا انتظار شروع ہوگیا۔ پھر دن وہ بھی آگیا۔ اب ہسپتال میں وہ خود کو واقعی بیمار سمجھنے لگا تھا کیونکہ اتنے روز گزر گئے تھے ‘ پھر حالت یہ کہ کوئی گھر والا مل بھی نہیں سکتا تھا۔ محض فون پر بات کرلی یا ایک دوسرے کی وڈیو کال پر شکل دیکھ لی۔ عمران محسوس کرنے لگا کہ جیسے پراسرار وبا نے اُسے گھیرے میں لے لیا ہے اور اس کے اعصاب اپنی گرفت میں لے چکی ہو۔ اس کا حوصلہ اب ڈگمگانے لگا تھا۔ سرکاری ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے لیٹے لگتا جیسے مہینوں گزر گئے ہیں۔ کبھی کبھار منہ پر ماسک پہنے عملہ آتا‘ جن میں کون ڈاکٹر‘ نرس یا سٹاف ہے انہیں یہ بھی اندازہ نہ ہوپاتا۔ کیونکہ وہ زیادہ قریب نہ آتے ‘ انہیں کھانا بھی دور رکھ کر سٹاف چلا جاتا‘ جہاں سے اٹھاکر کھاتے ۔ عمران اس سب کو بھی ایک قیدی جیسے سلوک سے کم نہ سمجھتا‘ لیکن اس نے کبھی شکوہ نہ کیا ۔عمران نے جتنی معلومات کورونا سے متعلق اکٹھی کی تھیں اس سب کے نتیجے میں اب اسے کچھ کچھ گبھراہٹ سی ہونے لگی تھی‘ پہلی بار سب سے زیادہ اس بات پر پریشان ہوا کہ ٹیسٹ ہوتے ہیں مگر رزلٹ نہیں آتے‘کبھی کہتے ہیں لیبارٹری میں تاخیر ہوگئی‘ کبھی سیمپل لاپتہ ہوگئے ‘ کبھی لیبارٹری میں کوئی مسئلہ آگیا‘ اب انہیں خود بھی شک ہونے لگا کہ کہیں ان کا معاملہ گڑبڑ ہے یا پھر ہسپتال کا عملہ عدم تعاون اور غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے یا سارے ہی اس انجان وبا سے پیدا صورتحال پر ڈرے ہوئے ہیں۔ ہسپتال کے عملے کو اپنی بھی زندگیاں جیسے خطرے میں نظر آرہی ہوں کیونکہ شعبہ طب سے وابستہ افراد بھی وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ دن گزرتے جارہے تھے‘ کبھی بڑا پراعتماد رہنے والا عمران بھی اب کچھ غصے اور بے بسی کا اظہار کرتا دکھائی دینے لگا‘ وہ سوچتا کہ اپنے محلے ‘ رشتہ داروں میں ایک بدنامی بھی مول لی‘ حالانکہ اس میں عمران کا کوئی قصور نہیں تھا‘ کہاں سے وائرس آیا اور وہ دھرلیا گیا؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔اب وہ زیادہ تر وقت اسی سوچ میں گم رہتا کہ کیسے اس عذاب سے جان چھوٹے گی۔ ہر کوئی اسے تسلی دیتا‘ مگر کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ میں تمہیں یہاں سے نکال کر لے جاؤں گا۔ اسے اطلاع ہے کہ کئی لوگ نیگٹیو رپورٹ آنے پر گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
عید آنے والی ہے ‘ اپنے بچوں سے مزید دور نہیں رہ سکتا‘ اس کا بھی دل کرتا ہے کہ وہ گھر کو لوٹ جائے ۔اب جیسے اس کا حوصلہ ٹوٹ سا گیا ہو ۔کہتا ہے کہ جو لوگ باتیں کرتے ہیں کہ کورونا کہاں ہے ‘ ہم نے نہیں دیکھا‘ حکومت کے لاک ڈاؤن نرم کرنے پر بازاروں میں چلے آئے ہیں‘ کوئی انہیں میری حالت دکھائے ‘ میں ہوں کورونا کا مجرم ‘ وہ تو ہسپتال بھی نہیں آسکتے ‘ میڈیا میری حالت بھی نہیں دکھاسکتا۔ میرے یہاں گزارے دن رات میری طبیعت سے متعلق کسی کو کچھ نہیں معلوم‘ مجھے تو کسی ڈاکٹر نے بھی آکر نہیں دیکھا کیونکہ میں تو ٹھیک ہوں‘ مگر کورونا ٹیسٹ مثبت آنا شاید میرا جرم اور قرنطینہ میری سزا ہے ۔