چریا وارڈ کا دربدر

ضیاء الحق کا مارشل لاء لگنے پر صحافیوں نے تحریک چلائی‘ اس میں حصہ لینے والوں کو کراچی کی سنٹرل جیل میں ڈال دیا گیا‘ اُن کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی‘ ان میں اخباری کارکن بھی تھے ۔ لاہور کا ستائس سالہ ایوب بھی وہاں گرفتار کرلیا گیا‘ وہ ایک قومی روزنامہ میں پریس مین کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ جیل کے ٹارچر سیل میں انہیں بند کردیا گیا۔ ایوب نے والد سے سُن رکھا تھا کہ ٹارچر سیل میں بہت تشدد ہوتا ہے ‘ اگر کسی نے جان بچانی ہو تو اسے چھوت کی بیماری کا بہانہ کردینا چاہیے ‘ ایوب نے بھی گھبرا کر جیل انتظامیہ سے کہہ دیا کہ مجھے تپ دق ہے ‘ اُن دنوں ٹی بی کے بارے میں عمومی تاثر یہی تھا کہ یہ وبائی مرض ہے ‘ انتظامیہ نے اسے جیل کے ہسپتال میں منتقل کردیا جہاں ڈاکٹرز نے اس کا معائنہ کیااور بتایا کہ اسے کوئی مرض نہیں‘ البتہ انہوں نے اسے ذہنی امراض کے سیل میں بھیج دینے کا مشورہ دیا۔ 
تفتیش کے دوران افسر نے اس سے پوچھا :تمہارا صحافیوں کے ساتھ کیا کام ہے ‘ تم تو پریس مین ہو‘ ان کی باتوں میں کیسے آگئے ؟ایوب نے انہیں بتایا کہ اخبار میرے جیسوں کی مدد کے بغیر شائع نہیں ہوسکتا‘ہم ان کے دست وبازو ہیں‘ یہ تحریک بھی ہماری وجہ سے چلائی جارہی ہے۔ اس نے افسر کے سوالات کے جواب دیے ‘ آخر میں اس افسر کو غصہ آگیاکہ تم نے مجھے کون سے باتوں میں لگادیا ہے تو ایوب بولا:جناب آپ خود ہی اخبار نکلنے کے مراحل میں دلچسپی لے رہے ہیں‘ میں صرف آپ کو تفصیل بتا رہا تھا۔ افسر نے ایوب سمیت دیگر صحافیوں کو حیدرآباد جیل کے چریا وارڈ (ذہنی امراض کا سیل) میں بھیج دیا۔
ایوب حقیقی لاہوری کردار ہے ‘ جس نے زندگی میں بہت زیادہ مشقت کی اور یہ اس کی سرشت میں شامل ہے کہ جس کام کا بیڑا اٹھایا اسے پار لگا کر دم لیا۔ گلی‘ محلے سے لے کے جہاں کہیں موقع ملتا‘ چھوٹے بڑے اور بزرگ کی تفریق کئے بغیر ہر کسی کیلئے بساط بھر کچھ نہ کچھ ضرور کرتا ہے ۔ ایوب کا اپنا خاندان اتنا بڑا نہیں‘ لیکن کئی گھرانے ایسے ہیں جہاں اُس نے نہ صرف آنا جانا ہوتا ہے بلکہ اُن کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی لی ہوتی ہے ۔کسی کے راشن یا بچوں کی تعلیم کے اخراجات کا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے ‘ یہ سب وہ اپنے جاننے والوں کی وساطت سے کرتا ہے‘ لیکن اللہ اس کا سبب ایوب کو بناتا ہے ۔ وہ ذاتی طور پر کوئی بڑی آمدن والا نہیں‘ ساری عمر روٹی کے چار حروف کے تعاقب میں گزار دی۔ ستر برس ہونے کو آرہے ہیں مگر زندگی کا سفر جہاں بہت مصروف رہا‘ وہیں کسی کی ہمسفری سے بھی محروم رہا۔
صحافت کے شعبے سے وابستگی نے جہاں صاحبانِ علم سے قربت کا موقع دیا‘ وہیں ایک کارکن کی حیثیت سے بندوں کے حقوق سے آگاہی حاصل کی اور اس جدوجہد میں کئی بڑے ناموں کا ساتھ دیا‘ ان میں نواب زادہ مظہر علی خان‘ آئی اے رحمان‘ حسین نقی‘ ظفر اقبال مرزا‘ ظفریاب احمد‘ احمد بشیر‘ شفقت تنویر مرزا اور کئی دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ اخباری کارکنوں کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے پر قیدوبند کی صعوبتیں بھی اٹھانا پڑگئیں۔ 
حیدرآباد جیل کے چریاوارڈ میں منتقل کئے جانے پر ایوب کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ حرکت خطرناک بھی ہوسکتی تھی۔خاور نعیم ہاشمی نے اس کی سرزنش کی کہ تمہاری وجہ سے دوسرے بھی شبے میں آگئے تھے۔ وہاں پاگل اور ذہنی مریض تھے ‘ ظاہر ہے ان کیلئے ماحول ٹھیک نہ تھا‘ یہ بات بعد کے دنوں میں سامنے آئی کہ انہیں چریا وارڈ میں دانستاً بھیجا گیا تھا کہ انہیں ذہنی طور پر دباؤ میں لایا جائے ۔ یہاں انہیں چند روز رکھنے کے بعد پھانسی گھاٹ کے سامنے والے سیل میں بند کردیا گیا‘ یہ تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ 
جیل سے رہائی پانے کے بعد ایوب اخباری کارکنوں میں مقبول ہوگیا‘ جس پر آج بھی فخر کرتا ہے ‘ اس نے بھٹہ مزدوروں اور خاص طور پر بچوں سے جبری مشقت کروانے والوں کے خلاف جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران بھی مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘ مگر اس کی طبیعت میں ایک مستقل مزاجی تھی جسے ایوب نے ان سینئرز سے سیکھا تھا‘ جنہوں نے کبھی آمریت کے خلاف بھی کسی قسم کی مفاہمت نہ کی۔
کسی زمانے میں ایوب اپنا تعارف ''دربدر‘‘کے نام سے کرواتا تھا‘ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں اس لئے کسی کو ہرگز تاثر نہ ملتا کہ دربدر اس کا تخلص ہے یا تکیہ کلام ہے ۔ وہ بڑے فخریہ انداز میں اپنا نام دربدر بتاتا‘ بلکہ ساتھ میں ایسے القاب بھی استعمال کرتا جنہیں سماج کے مظلوم اور امتیازی سلوک کے شکار افراد کیلئے ہم اکثر کرتے ہیں۔ بظاہر یہ سب عجیب لگتا اور کبھی کبھار اُسے منع بھی کیا جاتا کہ ایسا تعارف نہ کروایا کریں‘ لیکن یہ سب بُرا بھی نہیں لگتا تھا۔ یہ نام ''دربدر‘‘اس کی شناخت بن گیا۔ میں ہمیشہ ایوب سے کہتا کہ آپ کا نام اتنا اچھا ہے ‘ جس نبی کا صبر اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند تھا اور وہ ایک مثال قرار پائے ‘اُن کی مناسبت سے اپنی پہچان بناؤ۔ ایوب نے پنجابی کے پہلے روزنامہ کے اجرا میں بانی کارکن کی حیثیت سے کام کیا‘ اُس نے مادری زبان کیلئے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا‘ اُس نے صحافت سے دوری اختیار کرنے والے سینئرز کا ساتھ نہ چھوڑااور ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا‘ یہ انسانی حقوق کا مشن تھاجسے ایوب نے صحافت سے بھی زیادہ مقدم خیال کیا اور اس کام کے دوران بھٹہ مزدور بچوں کیلئے اُس کی کاوشیں اور تجربات مددگار ثابت ہوئے ۔ عاصمہ جہانگیر کی ٹیم کا حصہ بن گیا‘ ذرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں سے رابطے ختم نہ کئے ۔ ایک وقت آیا کہ ایوب صحافت اور انسانی حقوق کے درمیان پُل کی حیثیت اختیار کرگیا۔ جدوجہد ایوب کے خمیر میں گوندھ دی گئی ہے ‘ کسی فرد کے حق کی بات ہو‘ یا پھر پورے سماج کی آواز اٹھانا ہو‘ اس نے کبھی مصلحت پسندی کا دامن نہیں پکڑا اور مفادات کا راہ میں حائل ہوجانا‘ یہ محض کتابی باتیں ہوسکتی ہیں‘ ایوب ان سے بے خبر ہے۔ اس کی لغت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔
آج تین‘ چار دہائیاں پیچھے نگاہ دوڑائیں تو ہمیں بتدریج ایسے لوگ کم ہوتے نطر آئیں گے۔ بھٹو‘ جنرل ضیاء‘ کچھ جمہوری دور اس کے بعد جنرل مشرف اور پھر آتی جاتی حکومتیں‘ اس سب میں سیاسی کارکنوں کی تعریف جہاں بدلتی رہی وہیں سماج میں جدوجہد کرنے والوں کی شناخت بھی جیسے ختم ہوتی گئی۔ موجودہ نسل کیلئے ایوب شاید کوئی دربدر انسان ہو‘ کب اور کہاں حق کی آواز بلند کرنے میں شریک ہوا‘ اب اگر یہ تفصیلات بھی بیان کریں تو عجیب لگے گا۔ اب کسی تحریک میں پہلے سچ ڈھونڈنا پڑتا ہے اور پھر اس سے وابستہ افراد میں اخلاص۔ کم ازکم یہ خصوصیات ایوب جیسے کارکنوں میں ضرور ہوتی تھیں۔بے لوث جیسا لفظ بھی اب اپنے معنی تلاش کرتا ہے ۔ لالچ اور مفادات نے سماج میں جنم لینے والے ایسے انسانوں کی راہیں بند کردی ہیں۔ 
آج ایوب جیسے انسان‘ بے وقوف یا بے مقصد اپنا وقت ضائع کرنے والوں میں شمار کئے جائیں گے ‘ جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ملک کا نظام ٹھیک کرنا ‘ فلاحی ریاست کیلئے جدوجہد کرنا اور ایسے سماج کے قیام کی خواہش کرنا جہاں انصاف ہو‘ یہ کام منظم جماعتوں اور تنظیموں کا ہوتا ہے‘ جنہوں نے عوام کے حقوق کی سیاست کرنا ہوتی ہے ۔ ایوب اور ایسے لوگ اب قصوں میں بھی نہ مل سکیں گے ‘ جنہیں پڑھنے اور سننے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں۔ انہیں تو شاید پھر سے سماج کے چریا وارڈ میں منتقل کردینا چاہیے ‘ کیونکہ مقتدر ادارے اور شخصیات اپنی حاکمیت چیلنج کرنے والوں کو ناقابل قبول اور ناگوار سمجھتے ہیں۔دوسرے ان لوگوں کو سوشل میڈیا پر بھی کوئی نہیں جانتا‘ نہ ان کے کام اور کہی باتوں کا کوئی ٹرینڈ بنتا ہے ۔ یہ لوگ نارمل نہیں‘ کیونکہ اُن کے کام ذرا مختلف سے لگتے ہیں۔ وہ مشنری رضا کار جذبہ کہاں ہے ‘ کون ایسی سوچ رکھتا ہے کہ مفادات سے بالاتر ہوکر معاشرے اور افراد کی بہتری کیلئے خود کو وقف کردے ؟ملک جس دور سے گزر رہا ہے اُس میں ''دربدر‘‘ جیسوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے ۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں