پچھلے چھ ماہ سے کورونا کے وار جاری ہیں۔ کورونا وائرس آیا اور اس نے سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔میں نے اپنے ایک ماہر نفسیات دوست سے ان سارے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں کہ کسی بستی یا گاؤں میں کوئی وبا آتی یا پھر کوئی ظالم شخص آتا تو وہاں کے لوگ اپنے بچوں سمیت گھروں میں دبک کر چھپ جاتے‘تاکہ وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکے ۔ آج کی نسل کے ذہن میں ایسی صورت ِ حال کبھی نہ آئی ہوگی‘ کیونکہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں باہر نکلنے پر پابندی صرف اور صرف ہنگامی حالات میں ہوتی ہے۔ماہرین کی رائے میں کورونا وبا اپنے ساتھ ایک ایسا خوف لائی ہے‘ جسے پہلے آسانی سے قبول نہیں کیا گیااور اگر عالمگیر موذی وباکورونا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں نہ لیا ہوتا‘ تو شاید ہمارے ذہن ابھی بھی اس کو تسلیم نہ کرتے ۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی پہلی پابندی ‘کسی بھی طور پر دل ماننے کے لیے آمادہ نہیں ہوا؛خاص طور پر اپنے گھروالوں‘ عزیز و اقارب‘ دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں ‘سب پر لازم قرار دے دیا گیا کہ وہ سماجی فاصلہ اختیار کریں‘ پھر کاروبار‘ تعلیمی ادارے اور ہر قسم کی سرگرمیاں معطل ہوگئیں‘ اسی حالت میں کئی روز گزر گئے ‘ لاک ڈاؤن کی یہ صورت ِ حال جس میں بے روزگاری‘ گھروں میں بیٹھ کر تعلیم کا سلسلہ چلانے اور آپس میں رابطے محدود کرنے کے نتیجے میں ذہنی اور نفسیاتی معاملات بڑھ گئے اور کورونا وائرس کا خوف بہت زیادہ پھیل گیا۔ ادھر بے شمارلوگ اس موذی وبا سے متاثر ہونے لگے اور کچھ جان سے گئے ‘ ایسے میں گھر سے باہر جانے والوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں اورجب وہ واپس آتے ہیں تو اہل ِخانہ کو کورونا وائرس کا خطرہ لاحق ہو تا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت اور حکومتوں کا مسلسل اصرار رہا کہ تمام ہدایات غور سے سنیں اور اُن پر سختی سے عمل درآمد کریں۔یہ مشورے نہایت مفید تھے ‘ جن میں سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ صرف مستند اور درست خبریں دینے والے نیوز چینلز دیکھیں۔ اس کے علاوہ آپ اپنے معمول کے کام پابندی سے انجام دیں‘ جیسے کہ ہر روز وقت پر سونے اور بیدار ہوں‘ صفائی کا خیال رکھیں‘ صحت بخش خوراک کھائیں‘ ورزش کریں‘ اپنے کام اور آرام یہ توجہ دیں۔ تفریح والی سرگرمیوں کے لیے بھی وقت ضرور نکالیں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا کے متعلق خبریں دیکھنے ‘ پڑھنے اور سننے کا معمول کم کردیں‘ ورنہ اس سے آپ میں بے چینی اور پریشانی بڑھے گی‘ تاہم دن میں کچھ دیر کورونا سے متعلق معلومات جمع کرنے کیلئے مخصوص رکھ سکتے ہیں‘ اگر آپ کے سماجی تعلقات محدود ہوگئے ہیں‘ تو اپنوں کے ساتھ ٹیلی فون اور آن لائن رابطے ضرور کریں۔ جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ بہت زیادہ سکرین نہ دیکھیں‘ جس میں ٹی وی‘ کمپیوٹر اور موبائل فون شامل ہے ‘ اس میں خبریں‘ ویڈیو گیمز بھی ہیں‘اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیں‘ جہاں کہیں بھی غلط معلومات ملیں‘ انہیں درست کریں۔طبی شعبے سے وابستہ افراد کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کورونا وائرس کے باعث لوگوں کے مزاج چڑچڑے اور غصے والے ہوگئے ہیں‘ انہیں دوسروں سے پیار اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ خاص طور پر کورونا کا شکار افراد سے امتیازی اور اچھوت والا سلوک نہیں کرنا چاہیے ‘ اسی طرح انہیں رنگ و نسل‘ حیثیت اور فرقے کا طعنہ نہیں دینا چاہیے ۔ ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ والدین ہیں تو بچوں کو زیادہ توجہ دیں‘ معمول کے کام جاری رکھیں‘ اگر آپ گھر میں ہیں تو کچھ نئی سرگرمیاں بھی کریں۔کورونا سے متعلق معلومات کو مناسب انداز میں زیربحث لائیں‘ بچوں کی پڑھائی میں مدد کریں اور ان کے ساتھ مل کر کھیلیں۔خوف اور دکھ کا مثبت انداز میں اظہار کرنے میں بچوں کی مدد کریں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بوڑھے افراد پر خصوصی توجہ دینا ہوگی‘ انہیں اپنوں سے ٹیلی فون‘ ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے ‘ انہیں کھانے ‘ سونے اور تفریحی سرگرمیوں کا معمول بنانا چاہیے‘اگر آپ قرنطینہ میں ہیں تو بھی تھوڑی بہت جسمانی ورزش ضرورکریں۔ اس حوالے سے میں نے اپنے ایک اور ڈاکٹر دوست سے پوچھا کہ لوگوں کی نفسیات پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ اس کیلئے مزید کیا کچھ کرنا ہوگا؟ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے وہ لوگ جن کا دماغی امراض کا علاج چل رہا تھا۔ انہیں کسی قسم کا وقفہ نہیں ڈالنا چاہیے ۔وبا کے دنوں میں اور لاک ڈاؤن کی صورت میں زیادہ پریشانی ہوتی ہے ‘ اس لئے کوشش کرکے ڈاکٹر سے فون پر رابطے میں رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا سے متعلق خوف‘ پریشانی‘ بے یقینی جیسے جذبات اور احساسات جنم لے رہے ہیں۔ ایک طرف لوگ خصوصاً بچے ‘ عورتیں اور بوڑھے افراد گھروں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں‘ انہیں احتیاط کے طور پر ماسک پہننے پڑ رہے ہیں‘ جس کی عادت بالکل نہیں ‘ اس سے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے ۔
کورونا وائرس کی وبانے معیشت پر بھی بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں‘ لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی‘ کاروبار بند ہونے سے پیسے کی گردش کم ہوگئی‘ لوگوں کو ایک طرف صحت اور زندگی کے خطرات سے متعلق وارننگ دی جاتی ہے۔‘ دوسری جانب لاک ڈاؤن سے کام کی بندش نے ذہنی طور پرپریشان کردیا ہے۔ کسی کے پاس جمع پونجی تھی تو وہ ختم ہوچکی ہے ‘ کوئی ادھار اور قرض لینے پر مجبور ہوچکا۔ متوسط طبقے تک کو امداد لینے کی نوبت آگئی ہے۔ صورت ِ حال اس نہج پر آچکی کہ کوئی دوسرے کی مدد کرتے بھی کتراتا ہے ‘ کیونکہ ہر کسی کو اپنی فکر لاحق ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان حالات میں کمزور اعصاب والے بہت زیادہ ذہنی و نفسیاتی دباو کا شکار ہوگئے ہیں‘ جبکہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اکثریت بھی اعصابی تناو ٔمیں چلی گئی صرف قوت ارادی والے لوگ اس مرض کا مقابلہ کرپارہے ہیں۔
ماہرین کی رائے میں بھی جہاں انسانی جسم میں قوت مدافعت بڑھا کر وائرس سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ گھر سے باہر نکلنے اور واپس آنے میں خطرہ اب بھی ہے ۔ مستقل احتیاط کرنے والوں کی تعداد شاید زیادہ نہیں‘ صرف مخصوص اداروں میں پابندی کے نتیجے میں ماسک اور سینی ٹائزرز کا استعمال کیا جاتا ہے ‘ جن لوگوں کے اردگرد یا خاندان میں کورونا سے متاثر ہورہے ہیں‘ وہ تھوڑا محتاط ہوگئے‘ جن تک اس کے اثرات نہیں پہنچے‘ وہ اب بھی اسے مختلف معنی دے رہے ہیں۔
نفسیاتی ماہرین اس صورتِ حال کو غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں ۔ اُن کی رائے میں ہر گھر‘ ہر خاندان اس وائرس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس میں ضروری نہیں کہ وہ شکار ہوں‘ ہاں اس کے اثرات اُن کی زندگیوں کو تبدیل کردیں گے ‘ جسمانی سے زیادہ نفسیاتی پہلو بہت نمایاں ہیں۔کچھ بہت زیادہ بات کرتے ہیں جبکہ اسے غیراہم قرار دینے والے بھی شدید دباؤ میں ہیں‘ لیکن دانستہ گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں‘۔کورونا پہلے گھروں سے باہر کوئی غیر مرئی شے لگتی تھی‘ لیکن یہ گھر کے اندر بڑی خاموشی سے داخل ہوچکی ہے ‘ اور اس نے ہماری زندگی کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ ہر فرد اپنے خاندان‘ گھرانے کو نہ صرف معاشی طور پر چلانے کی فکر میں ہے‘ بلکہ دماغی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی شدید پریشان ہے ۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس عالمگیر موذی وبانے پوری دنیا کے ساتھ ہمیں متاثر کیا ہے‘ لہٰذا اس کیلئے بتائی گئی ہدایات پر عمل درآمد میں ہی سب کی بچت ہے ۔کسی قسم کا رسک یا خطرہ مول لینے کے نقصانات ہی نا صرف ہم پر‘ بلکہ ہمارے خاندان اور اردگرد والوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور حکومتی پابندیوں کو غیراہم سمجھنے میں سمجھ داری نہیں۔ اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے ۔
عالمی ادارۂ صحت اور طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وبا اورلاعلاج بیماری ہے ‘ اسے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دینا‘ بلکہ دوسروں کی مدد کرکے انہیں اس صورت ِ حال سے نکالنا ہے ۔ یہ خوف اور ڈر ختم کرنا ہوگا کہ میں گھر کیسے جاؤں یا میرے لیے گھر جانا مشکل ہے۔ اپنے غصے اور پریشانی پر قابو پاکر آگے بڑھنا ہوگا۔گھر اور اس کے افراد ہی آپ کی اصل طاقت ہیں۔ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اس وبائی صورت ِ حال سے نکلا جاسکتا ہے ۔