فون کی گھنٹی بجی‘ میں شاید اسی کا منتظر تھا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب ‘دوسری طرف بول رہے تھے ''یار‘ بدقسمتی سے رپورٹ پازیٹو آئی ہے‘‘۔ میں نے اسی روانی میں پوچھ لیا ''اچھا ‘میں نے بھی وہی کچھ کرنا ہے ‘ جیسی ہدایات پہلے دی تھیں؟‘‘۔ وہ بولے ''جی‘ اور بیٹے کی طبیعت سے آگاہ کرتے رہیے گا‘‘۔
آخر کا وہ میری دہلیز پر دستک دے چکی تھی‘ لیکن تین روز پہلے وہ مہمان جسے وبال جان ٹھہرایا جاچکا ہے ‘ بہت ذکر‘ ہر طرف چرچا اور شور مچا تھا۔ کوئی کہتا کہ وہاں سے آئی‘ کس نے دعوت دی؟ کوئی اس کے دیدار میں مرا جارہا ہے ‘ کسی کو یقین نہیں آرہا‘ ایک بحث‘ ایک موضوع جیسے مل گیا ہو ۔ بات یہاں تک مکمل نہیں ہوتی‘ تعارف ایسا کہ کسی نے پہلے کبھی اس جیسے مہمان کو دیکھا ‘نہ دیکھنے کی خواہش کی ہوگی۔
یہ وبا ہے ‘ وبال ہے یا کچھ کے خیال میں وارننگ ہے ۔بہر حال اس نے انسان کو بھرپور انداز سے جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ پوری دنیا کو دیکھتے ہی دیکھتے بغل گیر ہوگئی ہے۔ اس وقت کسی کا بھی ذہن اس سے خالی نہیں ہے۔
ہم اپنی جان سے کس قدر محبت کرتے ہیں‘ اس زندگی کی اہمیت کا احساس کرتے ہیں‘ یہ سب کو معلوم ہے اور قدرتی امر بھی ہے ۔ آدمی ہمیشہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ اُسے کچھ نہ ہو‘ اس کی صحت اور زندگی کسی طرح خطرے میں نہ پڑ جائے ۔یہ ایسی وبال جان آئی‘ جس کو محسوس کرنے ‘ قبول کرنے اور یہاں تک کہ شہادت کے طور پرقریب سے دیکھے بغیر دل کو تسلی اور یقین نہیں ہوپارہا تھا۔ اس کے قدم آہستہ آہستہ پھیلتے جارہے تھے ۔ اب‘ یہ سازش کم‘ حقیقت کا روپ دھار چکی ہے ‘ یہ دشمن جان اپنے پنجے گاڑ چکی ہے ۔
میرے گھر میں آنے تک اس نے کچھ وقت لیا۔ مجھے بھی دوسروں کی طرح باہر کام کے لیے جانا پڑتا ہے ‘ ڈیڑھ ماہ پہلے سب کے ساتھ ٹیسٹ کے عمل سے گزرا اور قرعہ میرے نام کا نہیں نکلا۔ ذہن اس وقت بھی تیار کرلیا تھا‘ کسی نہ کسی طرح دل کو قائل کئے بیٹھا تھا۔ اہل خانہ کے تاثرات پریشانی والے ضرور تھے‘ لیکن رپورٹ نیگٹو آنے پر جیسے خطرہ ٹل سا گیا تھا‘پھر عید آئی‘ پہلے جیسی خوشیاں بھی نہ لائی‘ پھر باہر گئے ‘لیکن دفتر کے کام سے اور کچھ نہیں ۔ ہاں اس سب کے دوران بڑے بیٹے کو بھی اپنے آرٹیکل شپ کے لیے جانا پڑا۔ اس نے کورونا کی بتائی علامات پکڑلیں اور چند روز کی علالت کے بعد فیصلہ ہوا کہ فوری ٹیسٹ کے عمل سے گزرا جائے ۔ میں شاید بیٹے کو لے جانے کی وجہ بنا۔ اس کا رزلٹ پازیٹو آیا۔ پریشانی کے ساتھ اس وبال نے بھی گھر کے اندر قدم رکھ جمالیے ۔ فوری خیال آیا کہ اب اپنا بھی ٹیسٹ کروانا ہوگا۔ یہی مشورہ ہر طرف سے آیا اور پھر میرے حق میں بھی مثبت رپورٹ کی اطلاع ہمارے دوست ڈاکٹر غلام فرید نے پہنچادی۔ ساتھ میں کچھ بنیادی مشورے اور بڑے بھائی والی تسلیاں!!
قرنطینہ کا پراسس پہلے سے بیٹا مکمل کررہا تھا‘ مجھے دکھ اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے گزرنا پڑرہا تھا۔ میرے ساتھ 87 سالہ دل اور سانس کے مرض میں مبتلا والد صاحب بھی قیام پذیر تھے ‘ میں نے انہیں فوری احتیاطی تدبیر کے طور پر پہلے ہی بڑے بھائی کے ہاں منتقل کردیا گیا تھا۔ وہ کورونا آنے پر پچھلے تین ماہ سے بہت زیادہ محتاط رہ رہے تھے ۔
کسی طور پر خوش قسمتی نہیں‘ بلکہ بدبختی کی علامت کہیں‘ تو اس مہمان کی آمد کا خیرمقدم کرنا ہماری مجبوری بن گیا۔ یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ جہاں بھی جاتی ہے ‘وہاں اردگرد خوف وہراس پھیلا دیتی ہے‘ کسی کو دیکھنے کی تمنا تک نہیں ہوتی‘بلکہ میزبان سے بھی لوگ گریزاں رہنے لگتے ہیں۔ہم ایسی صورتِ حال کے زیادہ عادی نہیں ہوتے‘ ہر شے الگ اور خود بھی ایک کمرے تک محدود‘ بلکہ اس میں محفوظ کردیئے جاتے ہیں۔کل تک دوسروں کو احتیاط برتنے اور حوصلہ دینے کے بعد اب ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی غلطی خود سے سرزد ہوگئی ہو‘ جیسے سچ بولنے کا درس دینے والا جھوٹ بولتے پکڑا گیا ہو‘ آہستہ آہستہ ڈرائیونگ کی تلقین کرنے والے کا اوورسپیڈنگ پر چالان ہوگیا ہو۔
پہلی رات آنکھ نہیں لگی‘ کسی قسم کا خوف نہیں تھا‘ لیکن اس مہمان کی موجودگی واضح طور پر محسوس ہورہی تھی۔ یہ تاثر بھی ذہن سے زائل ہوگیا کہ میں نے یا گھر کے کسی فرد نے کوئی بداحتیاطی یا غلطی کرلی ہے ۔ بالکل ایسا نہیں تھا‘ ہمیں ایسے بے شمار لوگ دائیں بائیں یاد آگئے ‘ جنہیں ابھی تک ایسا کوئی قدم اٹھاتے نہیں دیکھا‘ اگر یہ وہاں تک نہیں گئی‘ تو پھر وہ انتظار میں ہوں گے ۔ ہم دیکھ کر اور محسوس کرکے ہی یقین کرتے ہیں کہ انسانی فطرت جو ٹھہری!!!
بظاہر یہ اکثریت کو گزند پہنچائے اور زیادہ تنگ کئے بغیر رخصت ہوجاتی ہے ‘ لیکن جن بہت کم لوگوں کو پریشان کیا یا پھر انہیں اپنا ہمراہی بنانے پر بضد ہوئی‘ وہ مثالیں بھی ہمارے گھر میں زیر بحث رہ چکی تھیں اور حالیہ دنوں میں یہ واقعات تواتر سے گفتگو کا موضوع تھے ۔کورونا کی پکڑ اور گھروں تک رسائی تیز ہونے لگی‘ میرے بیٹے نے علامات کا سامنا کیا اور ابھی تک اپنی قوت ارادی سے اس کے ساتھ نبرآزما ہے ۔ وہ بھی میری طرح آنے والے کو مہمان کو مثبت انداز میں لے رہا ہے ۔جیسے دوسروں کو تسلی ‘ تشفی کے کلمات پہنچاتا تھا۔ اب‘ خود کورونا کا شکار ہوکر بھی کوشش یہی ہے کہ گھروالوں اور عزیز‘رشتہ داروں‘دوست احباب کو سماجی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے لیے کہتا ہوں۔
انسان سے غلطی ہوتی ہے ‘ اس سے سیکھنے اور اسے درست کرنے کا مزاج نہیں ‘ دوسروں کی خامیوں پر نگاہ رکھنے اور ان کی نشاندہی کرتے رہنے سے اصلاح نہیں ہوتی۔ مشورہ دینا ضروری ہے ‘ مگر یہ آسان ہے ۔ خود عمل کرنا زیادہ اہم اور مشکل ہے ‘ اگر ایسا کرلیں تو شاید اسی وبال جان مہمان کی آمد ناگوار نہ گزرے اورہم اس خواری سے بھی بچ جائیں‘ جس سے میرے جیسے گزررہے ہیں یا گزر چکے ہیں۔