پانچ دہائیاں پہلے اس سکول میں ہمارے خاندان کی آمد ہوئی‘ جہاں آج میں حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کھڑا تھا‘ وہ بھی محض اتفاق سے چھوٹا گیٹ کھلا دیکھ کر قدم بے خودی میں ادھر لے گئے ‘ اب یہ پہلے سے چھوٹا لگ رہا تھا‘ یا میری نگاہیں بڑی ہوگئی تھیں۔
1971 ء کی جنگ سے پہلے میری والدہ کی پوسٹنگ اس نئے سکول میں پہلی ہیڈمسٹریس کے طور پر ہوئی تھی‘ سکول کے قریب ہی ایک مکان کرائے پر لیا مگر وہ تیار نہ تھا‘ ہمارے والدین نے شفٹنگ کی تیاری کرلی تھی اس لئے فیصلہ ہوا کہ سکول میں ان دنوں چھٹیاں ہیں‘ وہیں ڈیرے ڈال لئے جائیں۔ امی نے سکول کی حالت بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا‘ ان دنوں ہمارے نانا بھی وہاں آئے ‘انہوں نے کہا: درخت اور پودے لگاؤ‘ بچوں کے درمیان اچھی فضا قائم کرتے اور سایہ فراہم کرتے ہیں۔ سکول کے دو بلاک تھے اور دو ہی چھوٹے کھیل کے میدان ‘ نانا نے ایک بوڑھ کے درخت کی شاخ سکول کے وسط میں بائیں جانب لگادی۔
میں چار سال کا تھا‘ سکول کی عمارت اور جنگ کی یادیں اب بھی دھندلی سی ہیں‘ جہازوں کی بمباری سے پہلے تیز سائرن بجتا‘ جس پر سب لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتے ‘ خصوصاً بچوں کو آواز دے کر بلالیا جاتا‘ پھر ایک ہلکے سائرن کا مطلب ہوتا‘ اب آپ باہر نکل آئیں۔ایک روز سائرن بجا‘ میں نانا کے لگائے اسی بوڑھ کے درخت کے پاس ٹرائی سائیکل چلارہاتھا‘ میں نے سوچا اس دوران جہاز گزرتے ہیں اور تو کچھ نہیں ہوتا‘ لیکن اس بار بمباری ہوئی‘ ایک طرف سے میرے بھائی مجھے آوازیں دے رہے تھے کہ ادھر آجاؤ یا دوسری جانب شیڈ کے نیچے چلے جاؤ‘ میں بمباری سے سہم بھی گیا تھا‘ اور سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کدھر جاؤں‘ والدہ نے آگے بڑھ کر مجھے پکڑا اور اپنے ساتھ لگاکر اندر لے گئیں‘ انہوں نے مجھے ہلکی سی ڈانٹ پلائی کہ آئندہ ایسے نہیں کرنا۔
اس سکول کے دو گیٹ تھے ‘ جوکہ اب بھی ہیں‘ یہ الگ الگ گلیوں میں کھلتے تھے ‘ مرکزی راہداری کے دائیں بائیں قدآور درخت اور پودے جب اپنی ہریالی پھیلانے لگے تو سکول کی شان مزید بڑھ گئی‘ شہر کا نواحی علاقہ ہونے کے باعث یہاں ایسا ماحول کم ہی دیکھنے میں ملتا‘ اس لیے عمارت کا عمومی تاثر بڑا بھلا تھا۔ یہ سکول میری مادرعلمی بھی قرارپایا اور میرے بچپن کی یادوں کا محور بھی۔ جہاں میں بعد کے ایام یعنی ہائی سکول اور فرسٹ ائیر تک کھیلتا اور چہل قدمی بھی کرتا تھا‘ کیونکہ والدہ وہاں کی سربراہ تھیں‘ انہوں نے ایک نیا بلاک تعمیر کروایا اور ایک بلاک کے اوپر نئے کلاس رومز بنوائے ۔ امی کے ساتھ ہماری پوری فیملی کی توجہ کا مرکز بھی سکول کے معاملات رہتے ۔ میرے لیے سکول کھیلنے کودنے اور تفریح کا مقام تھا‘ اس کے شہتوت‘جامن‘ بیر کے درختوں پر چڑھنا اور شاخوں پر اُلٹا لٹکنے کا جنون ہوتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ مل کر مختلف کھیل کھیلنے ‘ بڑے ہوئے تو کرکٹ کا میدان بھی یہیں سجتا۔ محلے کے دوستوں نے مجھے آکر کھیلنے کی ترغیب دینی حالانکہ بعض اوقات والدہ نے سختی سے منع بھی کیا ہوتا تھا‘ لیکن چوکیدار کو رُعب دکھا کر اپنا کام نکال لیتے تھے ۔ بڑے بھائی نے دوستوں کے ساتھ مل کرچھتوں پرپتنگ بازی کا شوق پورا کرلینا۔ یہ سب مشاغل چھُٹی کے بعد ہوتے تھے ۔
سکول کی ایک دیوار کے اس پار گرلز کالج تھا‘ چھوٹے ہوتے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ لیکن میٹرک تک اس میں بھی چھپی سی کشش باہر نکل آئی اور دیوار پر چڑھ کر دوسری جانب کے نظارے کرنے لگے ۔ اس کی شکایت ایک روز والدہ تک پہنچ گئی کیونکہ میں اکیلا نہیں تھا‘ بڑے بھائی بھی اسی نوعیت کی مہارت دکھا چکے تھے اور ایک دوبار شکایت موصول ہوچکی تھی۔ میں فرسٹ ائیر میں آچکا تھا اور گزرے بارہ تیرہ سال کا طویل عرصہ گھر کے بعد زیادہ اسی سکول میں کسی نہ کسی بہانے گزرا‘ آج بھی وہاں ہونے والے مختلف کھیلوں کے مقابلے ‘ سالانہ تقریبات‘ ان میں ہماری شمولیت اور انعامات وصول کرتے ہوئے کی تصاویر ان دنوں کی یادیں تازہ کردیتی ہیں۔ اس سکول کے بچوں کو شالامار باغ میں غیرملکی سربراہانِ مملکت یا اہم شخصیات کی آمد پر استقبال کا موقع ملتا۔ جب اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تو میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا‘ علاقائی لباس پہن کر اپنے بھائیوں کے ساتھ معزز مہمانوں پر گل پاشی میں شریک ہوا‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ سعودی شاہ فیصل‘ کرنل معمر قذافی‘ عیدی امین اور دیگر شخصیات کو قریب سے دیکھا‘ اس مناسبت سے اس سکول کو دوسری برانچوں پر ایک فوقیت حاصل تھی‘ اس کا نام بھی جونیئر ماڈل سکول شالامار ٹاؤن تھا۔والدہ نے 1984تک یہاں انتظام سنبھالا پھر یہاں سے ٹرانسفر ہوگئی‘ علاقہ کے رہائشی بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے‘ یہ وہ دور تھا جب لوگوں کے آپس میں اچھے تعلقات ہوتے تھے ‘ ایک دوسرے کا خیال رکھنا‘ عزت کرنا اور دکھ درد میں آگے بڑھ کر کام آنا۔
میں آج سکول میں کھڑا تھا‘ یہ پہلے سے مزید اچھی حالت میں دکھائی دیا‘ لیکن اس میں کچھ چیزیں ایسی نہ تھیں جن کی غیرحاضری نے دل کو دھچکا سا پہنچایا‘ اب میدان نہیں ہیں‘ درختوں اور پودوں کی تعداد بہت کم‘ وہ بوڑھ بھی اکھاڑدیا گیا جسے اس آس پر لگایا تھا کہ اس کا سایہ کسی کی یاد دلائے گا۔ فضا میں وہ تروتازگی شاید ناپید تھی۔
میں نے بمشکل تین چار منٹ وہاں گزارے ہوں گے ‘ کیونکہ فوراً ہی ایک اہلکار آگیا‘ اس نے آنے کا مقصد پوچھا‘ میں نے بتایا کہ کچھ نہیں‘ دروازہ کھلا دیکھ کر اندر آگیا‘اس نے کہا کہ اجازت نہیں ہے ۔ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں‘ بڑی سختی ہے ‘آپ چلے جائیں‘ میں نے کہا: یار میں چالیس‘ پینتالیس برس پہلے یہاں پڑھتا رہا ہوں۔ بس پرانی یادیں ہیں ‘ بہرحال اس نے کوئی اخلاق کا مظاہرہ نہ کیا اور نہ میں نے اصرار کیا‘ خاموشی سے باہر آگیا۔ لیکن میرا دل شاید اس احاطے کے اندر ہی رہ گیا جہاں میں نے بچپن کے دن گزارے اور آج ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ اس کو دیکھا تو جیسے کئی مناظر ایک کے بعد ایک کرکے نظروں کے سامنے تیزی سے گھومنے لگے ۔ان دنوں کی یادیں جیسے مجھے گوشۂ عافیت میں لے جاتی ہیں۔ دل کرتاہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ وہاں جاؤں‘ انہیں ایک ایک مقام دکھاؤں‘ وہاں ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کی تفصیل سناؤں۔ کئی قصے شاید دماغ سے محو ہوچکے ہیں‘ لیکن بہت کچھ آج بھی محفوظ ہے ‘ یہ سکول ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے ۔
کچھ عمارتیں آپ کے دل ودماغ میں گھر کرلیتی ہیں‘ ان کے درود یوار ‘ پودے ‘ درخت‘ حتیٰ کہ وہاں آنے والے لوگوں کے ساتھ گزرا وقت‘ اچھی اور خوبصورت یادیں‘ یہ سب مل کر ایک زبردست ماحول بنادیتے ہیں۔ کہ آپ ایک دلکش خواب سے جیسے باہر نکلنے پر افسردہ ہوتے ہیں۔ ویسے ہی ان بیتے ہوئے لمحوں کا تذکرہ ختم ہونے پر کیفیت ہوتی ہے کہ کاش یہ خواب اسی طرح جاری رہتا اور کہیں نہ ٹوٹتا‘ ہم انہی میٹھی باتوں کا مزہ لیتے رہتے ۔ شاید اس احساس یا ان لمحات کو بھی گوشۂ عافیت کا نام دیا جاسکتا ہے ۔
ہمیں کبھی کبھی جان بوجھ کر ارادہ کرکے ایسے لمحے تلاش کرنے چاہئیں جنہیں یاد کرکے ایک پُرکیف اور خوشگوار کیفیت میں ڈوب جائیں۔ مجھے ان تین چار منٹوں نے ماضی میں لے جاکر بہت بڑا احسان کیا۔ میں اس پر خوش ہوں کہ وہ دروازہ کھلا ملا۔ کیا ہوا جو میں اپنا دل وہاں چھوڑ آیا۔