’’یا مُرسی…اِرحَل، اِرحَل‘‘

سابق صدر مُرسی کو ایوانِ اقتدار میں مسند نشین ہوئے بمشکل ایک سال ہوا تھا کہ التحریر چوک پھر سے التقریر چوک بن گیا۔ قاہرہ کی شاہراہیں پھر سے لاوا اُگلنے لگیں۔ کئی ملین افراد کے بپھرے ہوئے ہجوم کی شعلہ بار زبانوں پر فقط ایک ہی نعرہ اُبل رہا تھا ’’یا مُرسی…اِرحَل، اِرحَل‘‘۔ آئیے پہلے صدر مُرسی کے اس ایک سالہ دور کا سرسری سا جائزہ لیتے چلیں تاکہ اُن کے خلاف اُبھرنے والی بغاوت کی اصل وجوہات کا کھوج لگایا جا سکے۔ O…جون 2012ء میں انھوں نے ایک معمولی فرق (4فیصد ) سے صدارتی انتخاب جیتا۔ O…اگست 2012ء میں انھوں نے وزیرِ دفاع اور فوج کے کمانڈر اِن چیف کو بیک جنبشِ قلم برخاست کر دیا۔ مصری آئین فوج کو اقتدار میں شرکت کا حق دیتا ہے یعنی نازک ملکی امور میں اُس سے مشورہ اور ہدایات لی جائیں …باالفاظِ دیگر فوج کی آشیرباد کے بغیر مصر میں نہ کوئی حکومت بن سکتی ہے اور نہ چل سکتی ہے۔صدر مرسی نے کوئی ہوم ورک کیے بغیر صرف دو ماہ کے اندر اس انتہائی اہم شق کو اُڑا دیا یعنی انھوں نے ایک بپھرے ہوئے گرانڈیل بیل کو سوئی چبھو کر یہ فرض کر لیا کہ وہ اب اُن پر جوابی حملہ نہیں کر سکے گا۔ O…فوج کے ساتھ ساتھ مصر کی عدلیہ کو بھی خاصے اختیارات حاصل تھے۔ وہ کسی بھی حکومتی فیصلے کو بدل سکتی تھی۔ صدر مرسی نے نومبر 2012ء میں طاقت کے اس دوسرے ستون پر بھی آرہ چلا دیا۔ انھوں نے عدلیہ کا یہ آئینی اختیار چھین لیا کہ وہ کسی حکومتی فیصلے کے خلاف سماعت کر سکتی ہے۔ O…دسمبر 2012ء میں انھوں نے اسلام کے نام پر ایک ریفرنڈم کروایاجس میں ’اسلامی حکومت‘ کے خلاف آزادیٔ تحریر، آزادیٔ تقریر اور جلسے جلوس کے حق کو سلب کر لیا۔ O…جنوری 2013ء میں مرسی کے خلاف مصر میں شدید ردِ عمل کا آغاز ہو گیا۔ O…فروری 2013ء میں مرسی نے لوئر ہائوس کے انتخابات کروانے کا اعلان کیا جسے صرف دو ماہ بعد (اپریل 2013ء میں) انھوں نے منسوخ کر دیا۔ O…مارچ 2013ء میں ان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ مصر کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ O…جون 2013ء کو انھوں نے مصر کے ستائیس علاقائی گورنروں میں سے 13برخاست کر دیے اور ان کی جگہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو گورنر لگا دیا۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے ایک ایسے کارکن کو بھی گورنر لگانے سے گریز نہیں کیا جو اٹھاون غیر ملکی سیاحوں کو سرِ عام قتل کرنے کے جرم میں 1997ء سے جیل میں بند تھا۔ انھوں نے اپنے اقتدار کے آغاز میں اپنی خارجہ پالیسی اور اپنے مذہبی رویے میں وسیع النظری کا تاثر دیا۔ ان کے دورہ ایران سے دنیا کو یہ اُمید سی بندھ چلی تھی کہ ان کی حکومت میں شدت پسندی اور فرقہ واریت کا وہ عنصر موجود نہیں جو اپنے سوا سب کو مشرک، کافر، شاتم ، گستاخ اور گردن زدنی گردانتا ہے… اور اس نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ اس زمین پر اللہ کی نمائندگی کا حق صرف اُسی کو حاصل ہے باقی لوگ محض حشرات الارض( کیڑے مکوڑوں) کی مانند ہیں۔ مگر جلد ہی مرسی نے پلٹا کھا یا اور شام میں باغیوں کی اعلانیہ حمایت شروع کر دی۔ بلکہ انھوں نے شام میں فوجی دستے بھیجنے کا بھی فیصلہ کر لیا جس سے مصری فوج مزید الرٹ ہو گئی۔ ذرا بدبختی ملاحظہ فرمائیے کہ تیل کی دولت سے مالامال عرب شہنشائیت اور شیوخ ہوں یا پھر اسلام کے مقدس نام پر پلنے والی قیادت ہو…وہ سبھی کے سبھی مسلم ممالک میں بسنے والے بے گناہ مسلم عوام کے سروں پر بم و بارود کی بارش کو ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت گردانتے ہیں۔ ان میں سے کوئی شام کی سفارتی، اخلاقی، مالی یا فوجی امداد کرنے کو تیار نہیں کہ وہ اسرائیل سے اپنے چھنے ہوئے علاقے واپس لے سکے۔ شام کے علاقے جولان میں اسرائیل نے جگہ جگہ جبراً اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں مگر اِدھر یار لوگ شام ہی کو ٹھکانے لگانے کے در پے ہیں۔ اِن لوگوں سے نہ اسرائیل کو کوئی خوف ہو گا اور نہ سامراج کو کوئی خطرہ!بلکہ وہ تو انھیں اپنی پہلی دفاعی لائن ہی فرض کرتے ہوں گے۔ مختصراً یہ کہ صدر مرسی کے یک طرفہ اقدامات سے ملک میں معاشی بحران کی لُو چلنے لگی۔ سرمایہ کاری کا عمل ساکت ہو گیا۔ مصر کی آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ٹورزم سے منسلک تھا مگر بگڑے ہوئے حالات میں یہ کنواں بھی بالکل خشک ہو کر رہ گیا۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مصر کی سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ دِگر گوں ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ چنانچہ کوئی چالیس روز قبل فوج نے صدر مرسی کو اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے، آئینی اور دیگر امور سلجھانے کا الٹی میٹم دیا۔ مرسی کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ اس فرصت کو غنیمت شمار کرتے ہوئے جمہوریت کو پٹڑی سے نہ اترنے دیتے اور فوج کو یہ جواز مہیا نہ کرتے کہ وہ ان کے خلاف ایکشن لے سکے۔ انھوں نے اس پیشکش کو بھی رد کر دیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں اور ایک ایسی قومی حکومت بنائی جائے جس میں ان کی جماعت بھی شامل ہو اور نئے انتخابات کروائے جائیں۔ گویا نوشتۂ دیوار اُن کے سامنے تھا مگر انھوں نے اس کی جانب پیٹھ پھیرے رکھی اور اپنی غیر لچکدار پالیسیوں پر گامزن رہے۔ نتیجہ یہ کہ 3جولائی کو فوجی الٹی میٹم کی مدت ختم ہوتے ہی وہ قصرِ صدارت سے اُچک لیے گئے۔ بقولِ شاعرے ؎ پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیان کے اُڑنے بھی نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے ہاں البتہ اُڑنے کو اخوان المسلمون کے رہبرِ کبیر آقائے بدیع، صدر مرسی کے اس انجام سے چار روز قبل اپنی ستائیس بیگمات کے ہمراہ اسکندریہ سے 265کلو میٹر دور اپنے قصبے میں واپس چلے گئے۔ بعد ازاں فوج نے انھیں بھی ’حفاظتی حراست‘ میں لے لیا۔ ستائیس بیویوں والا یہ استعارہ اپنی سمجھ میں نہیں آ پایا لیکن یہ خبر ایک عرب اخبار (گلف نیوز) میں 3اور 4جولائی کے اخبار میں شائع ہوئی۔ انہی شماروں میں یہ شرمناک خبر بھی چھپی کہ التحریر چوک سے 92خواتین کو اغوا کیا گیا جن میں سے 46 نے ابرو ریزی کا مقدمہ درج کروایا۔ لیکن انھوں نے جنسی تجاوز کا الزام کسی خاص جماعت پر نہیں لگایا۔ ہمارے ہاں چھوٹے سر کے بہت سے دانشور مصری فوج کے اس ایکشن کو پاکستان میں جرنیل شاہی کی طالع آزمائی سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ ذرا فرق ملاحظہ فرمائیے کہ مصر میں 1952ء میں جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر نے جب شاہ فاروق کا تختہ اُلٹا تو پہلے انھیں بھی مستعفی ہونے کا الٹی میٹم دیا گیا اور خاصی گفت و شنید کے بعد وہ ملک چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ اب بھی مصری فوج نے اس روایت کے عین مطابق صدر مرسی کو چالیس روز کا الٹی میٹم دیا۔ اور اِدھر ہماری حالت دیکھیے ہمارے ہاں چار مارشل لاء لگے ۔ یہ چاروں جرنیل دن کی روشنی میں ’حکومت زندہ باد‘ کے نعرے اُگلتے رہے لیکن رات کا اندھیرا چھاتے ہی انھوں نے اقتدار پر ڈاکہ مار لیا۔ کاش ان میں سے کوئی ایک تو ایسا نکلتا جو حکومت کی کوتاہیوں پر اُسے چالیس روز کا الٹی میٹم دیتا۔ یعنی ہم ہر معاملے میں دنیا سے یکتا بھی ہیں اور بے مثال بھی! مصر میں اقتدار کی یہ تبدیلی دہشت گردی اور تشدد کے ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ مصری عوام کے حق میں یہ دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا اُنھیں پاکستان اور افغانستان کے حشر سے بچائے۔ اخوان المسلمون جیسی سنجیدہ جماعت اور مصر کے لبرل رویوں میں افہام و تفہیم مصر کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر مصر کے حکمران اور قائدین حالات کی اس نزاکت کا ادراک کر پائے تو وہ پیچیدہ مسائل کی موجودہ دلدل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں