پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں پر ضمنی انتخابات کا پُرامن انعقاد ہوا جن کے نتائج آ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو 15 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ مجموعی طور پر برتری حاصل ہے‘ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) صرف چار نشستیں حاصل کر سکی جبکہ ایک نشست پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی بڑی جیت نے پنجاب میں اس خیال کی مکمل تردید کر دی ہے کہ سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف غیرمقبول ہے۔ یہاں (ن) لیگ کو پہلی دفعہ اس شدت کا دھچکا لگا ہے کہ آئندہ عام انتخاب اب اس کیلئے کٹھن آزمائش ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) نے کھلے دل کے ساتھ نتائج کو تسلیم کیا ہے‘ حالانکہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بچانے کیلئے یہ انتخابات مسلم لیگ (ن) کیلئے انتہائی اہم تھے۔ اس کے باوجود منفی پروپیگنڈے کا سہارا لینے کے بجائے مریم نواز اور دیگر لیگی رہنماؤں نے کہا کہ عوامی فیصلے کو کھلے دِل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اس روایت کی تقلید کی جانی چاہیے کیونکہ اس روایت سے جمہوری رویے پروان چڑھیں گے۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان انتخابات سے قبل ہی الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کر رہے تھے اب جبکہ نتائج ان کے حق میں آئے ہیں اور انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے تو کیا وہ عائد کردہ الزامات واپس لیں گے؟
پنجاب میں ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے ساتھ ہی حمزہ شہباز نے صوبائی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو دی ہے۔ اب وہ جمہوری روایت کے مطابق وزیراعلیٰ کے عہدے پر مزید فائز رہنے کے قابل نہیں‘ انہیں چاہیے کہ باوقار انداز میں عہدہ چھوڑ دیں۔ اتحادی جماعتوں کے اس تاثر میں بھی تقویت نہیں رہی کہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی‘ کیونکہ عمران خان اب پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نئے انتخابات کا مطالبہ کریں گے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کے رابطے جاری ہیں‘ ان کا لائحہ عمل سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ اتحادی حکومت کا مستقبل کیا ہے۔
تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں جیت کو اپنے اس بیانیے کی کامیابی قرار دے رہی ہے جو عمران خان نے گزشتہ چند ماہ سے اپنا رکھا تھا۔ کسی حد تک اس سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) کو ضمنی انتخابات میں ووٹ بینک کے حوالے سے نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس نے تحریک انصاف کی 20 نشستوں میں سے چار نشستیں لے لی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ 25 مئی کو جب الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس سے پہلے ہی جلسوں کے ذریعے انتخابی مہم کا آغاز کر چکے تھے‘ انہوں نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم خود چلائی‘ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم کا آغاز بہت بعد میں کیا۔ مریم نواز نے اگرچہ بھر پور انتخابی مہم چلائی‘ انہوں نے متعلقہ حلقوں میں بڑے جلسے کیے‘ تاہم وہ تن تنہا تھیں‘ لیگی قیادت وفاق میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکی۔ انتخابات سے محض چند روز پہلے وفاق سے ایاز صادق اور پنجاب سے ملک احمد خاں‘ اویس لغاری اور سلمان رفیق وزارتوں سے مستعفی ہو کر انتخابی مہم میں شامل ہوئے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی‘ اس کے برعکس تحریک انصاف کے امیدوار اور کارکن گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلا رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کی اہم وجہ ٹکٹوں کی تقسیم بنی۔ 20 میں سے 17 حلقوں پر ایسے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے گئے جو تحریک انصاف کے منحرف اراکین تھے۔ شاید یہ (ن) لیگ کی مجبوری بھی تھی کیونکہ ان اراکین نے پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ لیکن ووٹرز نے ان امیدواروں پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ متعلقہ حلقوں میں جو لیگی رہنما ٹکٹ ملنے کے امیدوار تھے انہوں نے بھی منحرف اراکین کو ٹکٹ ملنے کے بعد پارٹی کیلئے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا‘ یوں ایک خیال ہے کہ ٹکٹ کی تقسیم کے طریقہ کار کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اپنے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کی ایک وجہ مہنگائی بھی ہے‘ مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے اس کا اظہار یوں کیا ہے کہ مشکل فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب تحریک انصاف کی وفاق سے حکومت ختم ہو گئی اور اس کی جگہ اتحادی حکومت قائم ہوئی تو انہیں ادراک ہوا کہ مسائل ان کی سوچ سے زیادہ گمبھیر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ حکومت میں رہ کر سیاسی اعتبار سے نقصان اٹھانے سے بہتر ہے کہ نئے انتخابات کرا دیے جائیں‘ اس حوالے سے لندن میں نواز شریف سے ہونے والی لیگی قیادت کی ملاقات میں سب طے ہو گیا تھا لیکن آصف زرداری کے اصرار پر اور کسی حد تک شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی رائے بھی یہی تھی کہ حکومت میں رہ کر مسائل کو حل کر کے عوام کی حمایت حاصل کی جائے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹر نواز شریف پر اعتماد کرتا ہے‘ نواز شریف کا ملک سے باہر ہونا مسلم لیگ (ن) کی شکست کا سبب بنا ہے۔ ان عوامل کے بعد لیگی قیادت کو ایک بار پھر شدت کے ساتھ احساس ہونے لگا ہے کہ حکومت میں آنے کا فیصلہ غلط تھا۔
پنجاب میں ضمنی انتخابات کے بعد پیدا ہوانے والی سیاسی صورتحال سے کچھ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں حمزہ شہباز کے مقابلے میں اکثریت حاصل ہو جانے کے بعد بھی پرویز الٰہی ہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں تو ہو سکتا ہے شاہ محمود قریشی کو اس فیصلے پر اعتراض ہو کیونکہ وہ پنجاب سے وزیراعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے‘ مگر 2018ء میں وہ صوبائی سیٹ سے شکست کھا گئے۔ شاہ محمود قریشی کا خیال ہے کہ انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے دور رکھنے کیلئے پارٹی کے لوگوں کی منصوبہ بندی سے ہرایا گیا تھا‘ اب ان کے صاحبزادے زین قریشی ملتان کے حلقہ پی پی 217 سے کامیاب ہوئے ہیں تو شاہ محمود قریشی ایک بار پھر کیوں نہیں چاہیں گے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ ان کے حصے میں آئے؟
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی وزراتِ اعلیٰ ختم ہونے کے بعد وفاق میں اتحادی حکومت کمزور ہو گی کیونکہ اس صورت میں وفاق میں ایسی جماعت کی حکومت ہو گی جس کی کسی ایک صوبے میں بھی حکومت نہیں ہے۔ اگر تحریک انصاف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ نہیں لیتی اور اس کامیابی کی بنا پر عام انتخابات کا مطالبہ کرتی ہے تو اتحادی جماعتوں کیلئے وفاق میں حکومت برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وفاقی حکومت ایسے مقام پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ اس کیلئے حکومت میں رہنا یا نئے انتخابات کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر حکومت قائم رہتی ہے تو آئی ایم ایف سے جو معاہدے ہو چکے ہیں ان کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور کسی قدر عوام کو ریلیف بھی فراہم کیا جا سکتا ہے‘ مگر حکومت ختم ہونے کی صورت میں معاشی نتائج خطرناک ہوں گے کیونکہ ابھی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے قسط بھی جاری نہیں کی۔ سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے سے خدشہ ہے کہ یہ قسط روکی جا سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید گر سکتی ہے۔ پہلے ہی گزشتہ تین ماہ کے دوران ڈالر کی قدر میں قریب 30روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز محض ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں چھ روپے اضافہ دیکھنے کو ملا۔ پاکستان میں یہ ڈالر کی بلند ترین شرح ہے اس کے نتیجے میں مالی بحران شدید ہو سکتا ہے‘ ریلیف کے منتظر عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ آن پڑے گا اور عوام کو سیاسی تجربات کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔