اتحادی حکومت کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے‘ حکومت سنبھالنے کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ تین ماہ میں حالات معمول پر آ جائیں گے‘ آئی ایم ایف کی ایما پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی مد میں عوام پر اضافی بوجھ بھی ڈالا گیا مگر تین ماہ گزرنے کے بعد معلوم ہو رہا ہے کہ اتحادی حکومت مالی بحران پر قانو پانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ٹیلی فون پر اپیل کرنا پڑی ہے کہ آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط فوری جاری کرانے میں امریکہ کردار ادا کرے۔ مالی بحران کے تناظر میں آرمی چیف کا اقدام وقت کی ضرورت ہے اور وہ اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت میں بھی سعودی عرب اور چین کے ساتھ ایسا ہی کردار ادا کر چکے ہیں‘ تاہم یہاں سے اتحادی حکومت کی مجبوری واضح ہوتی ہے کیونکہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں سول بالادستی اور سفارت کاری کا علم بلند کرتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں ان جماعتوں نے عمران خان کو مطعون کیا کہ سفارت کاری حکومت کا کام ہے مگر یہ خدمات آرمی چیف کو انجام دینا پڑ رہی ہیں۔ اب حالات نے پلٹا کھایا ہے تو عمران خان حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
اتحادی حکومت دعوؤں کے برعکس کمزور ثابت ہوئی ہے‘ اس اتحاد میں اگرچہ 14جماعتیں شامل ہیں تاہم حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے اور مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ ان حالات میں یوں لگتا ہے کہ لیگی قیادت نے حکومت سے فوری علیحدگی کا فیصلہ نہ کیا تو وقت کے ساتھ ساتھ بچی کھچی مقبولیت بھی گنوا بیٹھیں گے کیونکہ وزارتِ عظمیٰ اور خزانہ سمیت اہم حکومتی عہدے مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں۔ دیکھا جائے تو اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش مسلم لیگ (ن) میں سے اکثریت کی نہیں ہے بلکہ مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں کہ اقتدار میں رہ کر مسائل کو حل کیا جائے۔
2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو سادہ برتری حاصل ہوئی تو تمام تر تحفظات کے باوجود مسلم لیگ (ن) عمران خان کو پورے پانچ سال کا وقت دینا چاہتی تھی مگر مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دینے کیلئے تیار نہ تھے۔ مولانا صاحب نے مؤقف اختیار کیا کہ مقتدرہ نے عمران خان کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا‘ اسے فوری ختم ہونا چاہیے۔ پھر مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی یہی مؤقف اپنا لیا کہ ایک منصوبے کے تحت عمران خان کی مقبولیت کے غبارے میں ہوا بھر کر اسے اقتدار میں لایا گیا۔ مضبوط اپوزیشن ہونے پر خیال تھا کہ عمران خان ایوان کے اندر کھل کر کام نہیں کر سکیں گے لیکن عمران خان کو قومی اداروں کی طرف سے جتنی سپورٹ ملی اور انہیں کام کرنے کا موقع ملا‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی‘ تاہم اس کے باوجود تحریک انصاف حکومت کی ناقص کارکردگی برقرار رہی‘ مہنگائی بڑھی تو مولانا فضل الرحمن نے اس کا فا ئدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے آزادی مارچ میں حمایت حاصل کرنا چاہی‘ دونوں جماعتوں کے سربراہان نے حمایت کا اعلان بھی کیا مگر جب اکتوبر 2019ء میں مولانا صاحب نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تو دونوں جماعتیں عذر تراشیوں سے کام لینے لگیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دونوں جماعتوں کی عدم شرکت پر ناراضی کا اظہار کیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی 2019ء میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے حق میں نہیں تھیں ان جماعتوں کا مؤقف تھا کہ اگر وہ وقت سے پہلے حکومت کو رخصت کر دیتی ہیں تو اس سے پی ٹی آئی سیاسی شہید بننے کی کوشش کرے گی اور عوام کی نظروں میں مقبول بن جائے گی۔ مولانا صاحب مگر خاموش نہیں بیٹھے‘ انہوں نے تحریک انصاف حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ٹھیک ایک سال بعد یعنی 2020ء میں اپوزیشن جماعتوں کو تحریک انصاف کے خلاف جمع کرنے اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اتحاد قائم کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ اس اتحاد کے سربراہ بھی بن گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک انصاف کو نشانہ بنانہ شروع کر دیا کیونکہ اس اتحاد سے ان کی آواز مؤثر ہو گئی تھی‘ تاہم مارچ 2021ء میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن اتحاد کو مات اور بعدازاں سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف کے عہدے کیلئے یوسف رضا گیلانی کو نامزد کیے جانے پر پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی کی جانب سے جاری کیے جانے والے وضاحتی خط پر پیپلز پارٹی قیادت سیخ پا ہو گئی جس کے بعد پی ڈی ایم اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا‘ اسی طرح اے این پی بھی وضاحتی خط پر پی ڈی ایم سے الگ ہو گئی۔ اس اختلاف کا نقصان بھی مسلم لیگ (ن) کو ہوا اور اعتماد کی فضا ختم ہو گئی۔ پی ڈی ایم سے دو جماعتوں کی علیحدگی کے بعد توقع تھی کہ اب اپوزیشن اتحاد قائم نہیں رہ سکے گا مگر چند ماہ کے وقفے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف ایک بار پھر جمع کر لیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں واپسی کے بغیر اپوزیشن کا دوبارہ حصہ بننے پر آمادہ ہو گئیں۔ حکومت کو رخصت کرنے کے کئی منصوبے پیش کیے گئے مگر اکثریت کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کے بعد اپوزیشن جماعتوں میں تاثر پایا جانے لگا کہ تحریک انصاف کے خلاف ''اِن ہاؤس‘‘ تبدیلی لانا مشکل ہے‘ سو اجتماعی استعفوں کا آپشن سامنا آیا مگر آصف علی زرداری سندھ حکومت کو قربان کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ اپوزیشن جماعتیں خود تسلیم کر رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے خلاف تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے اجتماعی استعفوں کے علاوہ کوئی آپشن کارگر ثابت نہیں ہو سکتا ہے مگر اسی دوران انہیں ایک اشارہ ملا اور فوری طور پر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی گارنٹی چاہتے تھے کہ انہیں آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دیا جائے۔ بلاول بھٹو کے دورۂ لندن میں نواز شریف سے ملاقات میں آئندہ الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات بھی کی گئی۔
اس پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومتی تبدیلی کے اس کھیل میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ضمنی انتخاب میں ناکامی اور پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ چلے جانے کے بعد مقبولیت میں کمی کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں اگر تحریک انصاف کے گیارہ اراکین قومی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہو جاتے ہیں اور اس کے نتائج بھی پنجاب کے ضمنی الیکشن جیسے آتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کو زور کا دھچکا لگے گا اور اس سے عمران خان کی مقبولیت مزید بڑھ جائے گی۔ تنزلی کے اس سفر میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف کسی نے سازش نہیں کی ہے بلکہ اپنی غلطیاں اور ہاتھوں کی کمائی ہے۔ شہباز شریف سمجھ رہے تھے کہ شاید ان کیلئے اقتدار میں آنے کا آخری موقع ہے۔ پنجاب میں حمزہ کو وزیراعلیٰ بنانا اس سے بڑی غلطی تھی۔ نواز شریف کو جو بتایا گیا انہوں نے اس پر یقین کر لیا یہ ان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان ہے۔ ہماری دانست میں مسلم لیگ (ن) ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے‘ اسے جس قدر طول دیا جائے گا خسارے کا باعث ہو گا۔ بہتر آپشن یہی ہے کہ فوری طور پر حکومت سے الگ ہو جائے‘ میاں نواز شریف وطن واپس آئیں اور اپنے بیانیے کے ساتھ الیکشن میں اتریں۔