"RS" (space) message & send to 7575

کوئین کے بعد کا لندن

گزشتہ کچھ روز سے لندن میں موجود ہوں‘ یہ سطور لندن سے تحریر کر کے ارسال کر رہا ہوں‘ جہاں حال ہی میں حکومت تبدیل ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کے باوجود نظامِ زندگی رواں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی قسم کی مخاصمت نظر نہیں آئی‘ جیسا کہ ہمارے ہاں حکومت تبدیل ہونے کے وقت دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان متعدد بار اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ مغرب کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا‘ لیکن یہاں لندن میں ہمیں کوئی ایسی سیاسی سرگرمی دکھائی نہیں دی جیسی سرگرمیاں تحریک انصاف کی پاکستان میں ہیں۔ تحریک انصاف پر ہی کیا موقوف پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے۔ پاکستان کی نسبت برطانیہ کی معیشت اگرچہ مضبوط ہے مگر یہاں بھی انہیں کئی محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ اپنی قدر کھو رہا ہے‘ جیسے ہمیں افغان مہاجرین کے مسائل درپیش ہیں یہاں برطانیہ میں یوکرین کے اور افریقی مہاجرین کے مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بھی ہے مگر اس کے باوجود حکومت و اپوزیشن ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں۔
اس وقت لز ٹرس برطانیہ کی وزیراعظم ہیں جنہیں برطانیہ کی تیسری خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان کا پورا نام میری الزبتھ ٹرس ہے۔ ان سے پہلے تھریسا مے اور ان سے پہلے مارگریٹ تھیچر اس منصب پر فائز رہ چکی ہیں۔ 47 سالہ لز ٹرس برطانیہ کی 16و یں اور آخری وزیراعظم ہیں جنہیں آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم نے اپنی تاج پوشی کے بعد سات عشروں پرمحیط عہد میں اس منصب کیلئے نامزد کیا۔ اس سے پہلے لز ٹرس کو 5 ستمبر کو کنزرویٹو پارٹی (ٹوری ) کے ارکان کی اکثریت نے نئی پارٹی لیڈرکی حیثیت سے منتخب کیا تھا۔ انہوں نے پارٹی قیادت کیلئے بھارتی نژاد حریف رشی سوناک کو شکست دی۔ لزٹرس کو دائیں بازو کا سخت حامی سمجھا جاتا ہے۔ برطانوی میڈیا اکثر ان کا موازنہ سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر سے کرتا ہے۔لزٹرس کے والد جان کینتھ لیڈز یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر جبکہ والدہ پرسکیلا میری ٹرس ایک نرس تھیں۔ 1996ء میں لزٹرس نے مرٹن کالج‘ آکسفورڈ سے فلسفہ‘ سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم مکمل کی۔ 2000ء میں ان کی ہیو اولیری سے شادی ہوئی ‘ ان کے شوہر پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ 1996 ء سے 2000ء تک لز ٹرس نے اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کیا‘وہ برطانیہ کی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی کیبل اینڈ وائرلیس میں بھی کام کر چکی ہیں۔ اس کمپنی میں وہ اقتصادی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچیں‘ تاہم 2005ء میں انہوں نے یہ کمپنی چھوڑ دی۔
لز ٹرس کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے ہے مگر وہ ہمیشہ سے کنزرویٹو پارٹی کا حصہ نہیں تھیں۔ وہ بائیں بازو کی سیاست سے دائیں بازو کی سیاست میں آئی ہیں۔ لز ٹرس نے سات سال کی عمر میں اپنے سکول کے فرضی عام انتخابات میں مارگریٹ تھیچر کا کردار ادا کیا تھا۔ مرٹن کالج میں تعلیم کے دوران لز ٹرس نے لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے مہم چلائی۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی لبرل ڈیموکریٹس کی چیئرپرسن بھی رہیں جبکہ لبرل ڈیموکریٹس یوتھ اینڈ سٹوڈنٹس کی نیشنل ایگزیکٹو کی رکن بھی تھیں۔ گریجویشن کے بعد یعنی 1996ء میں انہوں نے لبرل ڈیموکریٹس پارٹی چھوڑ کر کنزرویٹو پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ تب سے وہ اسی پارٹی میں ہیں۔ لز ٹرس نے 1998ء اور 2002 ء میں گرین وچ لندن بورو کونسل کے انتخابات میں بھی حصہ لیا؛ تاہم دونوں بار انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2005ء کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ کیلئے الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکیں۔ 4 مئی 2006 ء کو انہوں نے کونسلر کا پہلا الیکشن جیتا۔ 2010 ء میں ساؤتھ ویسٹ نارفوک سے پہلی بار رکن پارلیمنٹ بنیں اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کے لیے پارلیمانی انڈر سیکرٹری مقرر کیا گیا۔صرف دو سال کے اندر وہ ماحولیات‘ خوراک اور دیہی امور کی سٹیٹ سیکرٹری بن گئیں۔ کئی مختلف سرکاری ملازمتوں کے بعد انہیں ستمبر 2021 ء میں سیکرٹری خارجہ برائے دولت مشترکہ و ترقیاتی امور مقرر کیا گیا تھا۔ یوں لزٹرس تین وزرائے اعظم کے ساتھ چھ مختلف وزارتی عہدوں پر کام کر چکی ہیں۔ لز ٹرس نے پہلے برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی مخالفت کی تھی؛ تاہم بعد میں وہ اس کی حامی بن گئیں۔ اس تفصیل کے بیان کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آج کی برطانوی وزیراعظم وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کن اہم عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں اور اپنے عہدے کیلئے کس قدر اہل ہیں۔
لز ٹرس سے پہلے بورس جانسن برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ اس وقت سیاسی کشیدگی موجود تھی مگر بورس جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد سیاسی استحکام آ گیاہے‘ برطانوی عوام میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد اپوزیشن اور حکومت باہمی تعاون سے مسائل پر قابو پا لیں گے۔ برطانوی معاشرے میں سب سے اہم چیز جو دیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ مشکل حالات کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو امید دلاتے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیتے ہیں۔ کئی مقامی افراد سے سیاسی امور پر بات چیت سے معلوم ہوا کہ عام شہریوں کو سیاسی معاملات میں خاص دلچسپی نہیں ہے‘ عوام کیلئے ملک سب سے مقدم ہے سیاست بعد میں آتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان جیسے معاشروں میں سیاسی اور سماجی پستی کی بات صادق آتی ہے۔ میری طرح لندن آنے والا ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ برطانیہ ہمارے سیاستدانوں کا پسندیدہ ٹھکانا کیوں ہے؟سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لندن میں مقیم ہیں‘ وزیرخزانہ اسحاق ڈار ابھی حال ہی میںلندن سے پاکستان واپس گئے ہیں۔ عمران خان بھی طویل عرصہ تک لندن مقیم رہے ہیں‘ دیگر سیاستدان بھی نہ صرف یہ کہ برطانیہ میں رہنا پسند کرتے ہیں بلکہ ان کی پراپرٹی اور کاروبار بھی لندن میں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اہلِ سیاست نے لندن میں رہ کر کچھ بھی نہیں سیکھا۔ لندن میں قیام کے دوران طرزِ سیاست‘ طرزِ حکمرانی‘ سول سوسائٹی اور معاشی ماڈل اپنانے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔اہلِ سیاست اپنی اور خاندان کی زندگیاں آسان بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں مگر یہاں سے سیکھ کر اپنے ملک میں اصلاحات لانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔برطانیہ میں حکومت و اپوزیشن سیاسی حریف ہونے کے باوجود ایک دوسرے پر غداری کے مقدمات قائم نہیں کرتے‘ جس پارٹی کو مینڈیٹ ملتا ہے وہ اپنے منشور اور ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہے اور جو پارٹی عوامی کی حمایت سے محروم رہتی ہے وہ خاموشی کے ساتھ اقتدار سے الگ ہو جاتی ہے۔ لندن قیام کے دوران ہر چیز میں تہذیب اور شائستگی کو محسوس کیا۔ ہمارے ہاں بھی پارلیمانی نظام کا دعویٰ کیا جاتا ہے‘ اہلِ سیاست مغرب کی تقلید میں فخر بھی محسوس کرتے ہیں‘ کاش ہم نے مغرب سے جمہوری اور پارلیمانی اقدار بھی سیکھنے کی کوشش کی ہوتی۔ برطانیہ میں ٹیکس دینے کا قومی رجحان موجود ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے ٹیکس وصولی کا منظم نظام بنا دیا گیا ہے‘ لوگ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے باقاعدگی سے ٹیکس جمع کراتے ہیں جسے ریاست عوام کی فلاح پر خرچ کرتی ہے۔ سب سے اہم چیز جو مشاہدے میں آئی یہاں قومی اداروں کا مکمل احترام کیا جاتا ہے‘ قومی سلامتی کے امور میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے‘ عوام کی اکثریت اپنے فوجی سربراہ یا خفیہ اداروں کے سربراہان کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ نہ ہی یہاں کے لوگ شخصیات کی فالوِنگ کے مرض میں مبتلا ہیں۔ کوئین کے بعد کا لندن کسی قدر افسردہ ضرور ہے مگر حکومت و اپوزیشن سمیت ملک کا ہر فرد قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے‘ ہمیں برطانیہ سے ایسی مثبت اقدار سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں