موجودہ حالات میں اہلِ سیاست کے ہاں سب سے بڑا مسئلہ آرمی چیف کی تقرری بن چکا ہے۔ تمام تر توانائیاں اس اہم تقرری میں صرف ہو رہی ہیں‘ جیسے ہمارے دیگر مسائل حل ہو گئے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا چکی ہے‘ سکیورٹی اہلکاروں پر پے در پے حملے خطرے کی علامت ہیں۔ چار روز قبل لکی مروت اور باجوڑ میں سکیورٹی فورسز پر الگ الگ حملے ہوئے جس میں مجموعی طور پر آٹھ اہلکار شہید ہو گئے۔ باجوڑ میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کا مقابلہ ہوا‘ فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گردمارا گیا دوسرے اسلحہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔اس واقعے میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکار شہید ہوئے۔ لکی مروت میں پولیس وین پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس میں چھ اہلکار شہید ہوئے اور حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ سکیورٹی اہلکاروں پر حملے دراصل ان واقعات کا تسلسل ہیں جو کچھ عرصہ سے خیبرپختونخوا میں شروع ہو چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ایسے واقعات پر پردہ ڈالتی رہی ہے‘ پولیس اہلکاروں پر حملوں کو انتقامی کارروائی قرار دے کر معاملہ دبا دیا جاتا تھا‘ مگر اب ٹی ٹی پی نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دی ہے۔ٹی ٹی پی ترجمان نے کہا ہے کہ چند روز قبل ہمارے سات افراد کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس کے ردعمل میں کارروائیاں کی گئیں۔
سیاسی عدم استحکام اور تباہ حال معیشت کے ساتھ اگردہشت گردی کا چیلنج بھی شدت اختیار کر جاتا ہے تو ہمارے مسائل آج سے بیس برس قبل کی سطح پرپہنچ جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد ہم جس پراکسی وار سے باہر نکلنے کا دعویٰ کر رہے تھے دراصل وہ اب بھی جاری ہے۔قبائلی اضلاع کے عوام اور سکیورٹی فورسز نے امن کیلئے بہت قربانیاں دی ہی۔ وزیرستان‘ باجوڑ اور دیگر قبائلی اضلاع کے لوگ امن کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کی حکومت قائم ہونے پر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شادیانے بجائے گئے تھے‘ تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں بدامنی کے مسائل نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ افغانستان کی سرزمین میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہوا جس میں افغان طالبان نے سہولت کاری فراہم کی‘ پاکستان سے جید علما کا وفد افغانستان بھی گیا مگر تاحال ان کوششوں کے مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیس دہشت گردی کے خلاف ہر اول دستے کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہے۔پولیس کی ٹریننگ اور دستیاب وسائل دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد پولیس کو آسانی سے ہدف بنا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ اس کے برعکس سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا عسکریت پسندوں کے لیے آسان ہدف نہیں ہے کیونکہ سکیورٹی فورسز کی جو گاڑیاں گشت پر نکلتی ہیں وہ ہر طرح کے اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ جب سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کی مڈبھیڑ ہوتی ہے تو اس کا انجام بالعموم عسکریت پسندوں کی ہلاکت یا فرار کی صورت ہوتا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی نسبت عسکریت پسندوں کا نقصان زیادہ ہوتا ہے‘ انہی وجوہات کی بنا پر عسکریت پسند پولیس کو نشانہ بنا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت پولیس کو جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی دعویدار ہے مگر زمینی حقیقت اور نتائج اس دعوے کی قلعی کھول رہے ہیں‘ سو گشت پر نکلنے والے پولیس اہلکاروں کی خصوصی ٹریننگ‘ جدید اسلحہ کی فراہمی اور انٹیلی جنس شیئرنگ ازحد ضروری ہے۔وسائل فراہم کئے بغیر پولیس کے لیے فرنٹ لائن پر رہ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ پولیس کو دہشت گردی کے حملوں سے تحفظ فراہم کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ جب پولیس اہلکار غیر محفوظ ہوں گے تو عوام میں خوف و ہراس پیدا ہو گا اور یہ تاثر قائم ہو گا کہ جب پولیس اہلکار ہی محفوظ نہیں ہیں تو عوام کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟بدقسمتی کی بات ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا چیلنج اعلیٰ سطحی حکام کی توجہ کا مرکز نہیں ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاق دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کا دکھ سمجھنے سے قاصر ہے اور وفاق کے لیے سیاسی معاملات عسکریت پسندی کے چیلنج سے اہم ہیں۔
خیبرپختونخوا میں گزشتہ نو برس سے تحریک انصاف کی حکومت ہے‘ توقع تھی کہ لکی مروت پولیس اہلکاروں پر ہونے والے واقعے کی عمران خان پرزور الفاظ میں مذمت کریں گے مگر تین دن گزر جانے کے بعد ایک سرسری بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ امن بحال کیا جائے‘ اپنی حکومت سے کوئی بازپرس نہیں کی گئی‘ خان صاحب خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے کس سے مطالبہ کر رہے ہیں بالخصوص پولیس کی سکیورٹی فول پروف بنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آئی جی خیبرپختونخوا کا منصب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اصل حقائق قوم کے سامنے پیش کریں تاکہ معلوم ہو سکے کہ خطرہ کس نوعیت کا ہے‘ انہوں نے مگر حقائق کو چھپانے کی کوشش کی اور کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ آئی جی کی بات سے رحمان ملک (مرحوم) کی بات یاد آئی جب پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وہ وزیر داخلہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ دہشت گردوں کے حملے بوکھلاہٹ کی علامت ہیں‘ اب دہشت گرد آخری سانسیں لے رہے ہیں‘ مگر اگلے ہی روز ایک اور حملہ ہو جاتا تھا۔
خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے عسکریت پسندی کے معاملے پر مبہم طرز عمل اختیار کر رکھا ہے‘ کبھی ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا اقرار کیا جاتا ہے اور کبھی انکار کر دیا جاتا ہے۔بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ جب صوبے میں سکیورٹی کے مسائل جنم لے چکے ہیں تو کیا صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کے سامنے ساری صورتحال رکھ کر حالات پر قابو پانے کی باقاعدہ درخواست دی ہے؟ ہماری رائے میں صوبائی حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پریس کانفرنس کرکے اور وزرا کے نجی محفلوں کے بیانات کو کافی سمجھ کر امید لگائے بیٹھی ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں قیام امن کیلئے کارروائی کرے‘ ظاہر ہے ریاست کے معاملات حتمی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے ہونے والے حملوں پر صوبے اور وفاق کی خاموشی سے اگر کوئی سمجھ رہا ہے کہ ہمارے سکیورٹی مسائل حل ہو جائیں گے تو یہ سوچ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔حالات کی نزاکت کا ادراک کر کے قومی سطح پر مسئلے کا حل نکالنا ہی امن کی ضمانت ہو سکتا ہے ورنہ ہمیں کسی بڑے سانحے یا پراکسی وار کے ملبے میں پڑی چنگاریوں کے شعلوں کی زد میں آنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔