"RS" (space) message & send to 7575

دو جماعتیں اور ایک بیانیہ‘ کتنا کارگر؟

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سید محسن رضا نقوی کو پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ تعینات کر دیا ہے‘ جنہوں نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ تحریک انصاف مگر اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔ پی ٹی آئی نے نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے نگران وزیراعلیٰ کے حوالے سے جو الفاظ استعمال کیے ہیں‘ انہیں یہاں دہرانا مناسب نہیں۔ خان صاحب کو الفاظ کے چناؤ میں محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔ تحریک انصاف جس معاملے پر احتجاج کر رہی ہے‘ اگر حزبِ اختلاف کے ساتھ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا تو قطعی طور پر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس نہ جاتا‘ جیسا کہ خیبرپختونخوا میں ہوا ہے۔ دونوں صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ ایک صوبے میں وزیراعلیٰ کی تعیناتی کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا جبکہ دوسرے صوبے میں جارحانہ رویہ اپنایا گیا۔ خیبرپختونخوا میں نہ صرف یہ کہ وزیراعلیٰ کی تعیناتی خوش اسلوبی سے ہو گئی بلکہ کابینہ کے ناموں پر بھی تقریباً اتفاق ہو چکا ہے۔ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کی طرح کابینہ کی تشکیل بھی آسانی سے ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہر انتخابات پر نگران سیٹ اَپ کی تشکیل میں ایک نیا تماشا لگتا ہے۔ آخر نگران سیٹ اَپ کا مقصد ہی کیا ہے۔ بہت سے جمہوری ممالک میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے حتیٰ کہ بھارت جو ہمارے مقابلے میں بڑا جمہوری ملک ہے‘ وہاں نگران حکومت کے بغیر انتخابات کا انعقاد ہو تا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ تحریک انصاف پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کے معاملے پر سڑکوں پر نکلنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ اگر عملی طور پر وہ سڑکوں پر نکل آتی ہے تو پھر صوبوں اور وفاق میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔
غور طلب امر مگر یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف دانستہ طور پر انتخابات سے راہِ فراہ اختیار کر رہی ہے؟ الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ مارچ میں قومی اسمبلی کی 64 جبکہ پنجاب اسمبلی کی 297 اور خیبرپختونخوا کی 115نشستوں پر اپریل میں الیکشن کرائے جائیں گے۔ قومی اسمبلی کی 64نشستوں پر ضمنی انتخابات پر اخراجات کا تخمینہ پانچ ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات پر 15ارب روپے اخراجات کا تخمینہ ہے۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی مد میں 18 ارب روپے جاری کر دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخابات بالترتیب مارچ اور اپریل کے مہینوں میں کرانے کا عندیہ دیا ہے‘ مارچ کے آخری عشرے میں ماہِ رمضان المبارک شروع ہوجائے گا جو اپریل کے آخر میں ختم ہوگا۔ یوں عملی طور پر ان مہینوں میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اس سے قبل انتخابات پر اصرار کرتے ہیں اب جبکہ الیکشن کمیشن نے وفاق میں ضمنی اور صوبوں میں عام انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے تو تحریک انصاف کو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ نو ماہ سے زائد عرصہ سے جو مطالبہ کر رہے تھے وہ پورا ہونے جا رہا ہے‘ مگر اس کے برعکس تحریک انصاف نے دوبارہ مزاحمتی رویہ اپنا لیا ہے‘ جس سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک سیاسی جنگ جاری رہے گی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے۔ خان صاحب اپنی مرضی کی نگران حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے‘ نگران سیٹ اَپ کے لیے وہ قومی اسمبلی میں آنے کے لیے بھی تیار تھے کیونکہ خان صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ جس مقبولیت کا وہ نعرہ لگا رہے ہیں‘ اس میں کتنی حقیقت ہے۔ سو جب بیساکھیوں کا سہارا بھی ہٹ گیا اور وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی تعینات نہ کرا سکے اور جب نگران حکومت بھی اپنی مرضی کی تشکیل نہ دے سکے تو ان کے پاس احتجاج اور سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ تحریک انصاف کا ایسے حالات میں سڑکوں پر نکلنا جبکہ عام انتخابات کی تیاری چل رہی ہے‘ سیاسی نقصان کا باعث بنے گا۔ پچھلے نو ماہ سے زائد عرصے کے دوران اور اسمبلیوں کی تحلیل تک خان صاحب نے جو اقدامات کیے ہیں‘ وہ الٹے ثابت ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف اس سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ اب احتجاج کا فیصلہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو سکے گا۔ قومی اسمبلی سے تقریباً 80استعفے منظور ہونے کے بعد تحریک انصاف کے 44اراکین نے استعفے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جو اراکین باقی ہیں‘ ان کے استعفے منظور نہ ہو جائیں۔
اتحادی حکومت کی پوزیشن یہ ہے کہ ہزار کوششوں کے باوجود معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ معاشی ماہرین نے 2023ء میں مالی خسارہ جاری رہنے کی پیش گوئی کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتحادی حکومت عوام سے مہنگائی کے خاتمے کا جو وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی‘ وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے قوی امکان یہ ہے کہ اتحادی حکومت اپنی خوبیوں کے بجائے تحریک انصاف کی خامیوں پر عام انتخابات میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ صوبوں اور وفاق میں انتخابات کا شیڈول جاری ہوتے ہی میاں نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے‘ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ نواز شریف واپسی پر کیا بیانیہ اپنائیں گے؟ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف 2017ء میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے اصل کرداروں کو بے نقاب کریں گے۔ لندن سے آنے والے لیگی رہنما جاوید لطیف نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے لیکن کیا وہ ایسا کرنے سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ 2017ء میں جب نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا تو انہوں نے جلسوں میں کہا کہ ''انہیں کیوں نکالا؟‘‘ اب لگتا ہے وہ خود ہی اس کا جواب دیں گے کہ انہیں کیوں نکالا گیا تھا۔ ہماری دانست کے مطابق انہیں جارحانہ رویہ اپنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا کیونکہ وہ اس سے قبل 2017ء میں ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگا کر جارحانہ رویہ اپنا چکے ہیں۔ جارحانہ رویہ اپنا کر وہ بادی النظر میں خان صاحب کو سیاسی فائدہ پہنچائیں گے کیونکہ خان صاحب اس وقت مقتدرہ کی مخالف سمت کھڑے ہیں۔ میاں نواز شریف کے بھی اس سمت کھڑا ہونے سے خان صاحب کے مؤقف کو تقویت ملے گی۔ خان صاحب اور میاں نواز شریف کا بظاہر ایک ہی موقف دکھائی دیتا ہے؛ تاہم میاں نوازشریف چاہتے ہیں کہ مقتدرہ جمہوریت میں کسی طرح کی مداخلت نہ کرے جبکہ خان صاحب کی خواہش ہے کہ مقتدرہ صرف ان کے حق میں مداخلت کرے۔ کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے نہ ہی تحریک انصاف کے پاس‘ جس نے خیبرپختونخوا میں ساڑھے نو برس حکومت کی ہے اور وفاق میں ساڑھے تین برس تک۔ سیاسی جماعتیں عوام کو ریلیف فراہم کیے بغیر اور معاشی بحران کا جامع حل پیش کیے بغیر جب الیکشن میں جائیں گی تو ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو مقبولیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملے گا بلکہ شخصی ووٹ پڑنے کا غالب امکان ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے انتخابات کے بعد جو حکومت قائم ہو گی‘ وہ مخلوط اور نہایت کمزور حکومت ہو گی جس کی ساری توجہ عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اپنے اتحادیوں کو نوازنے پر مرکوز ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں