"RS" (space) message & send to 7575

سکیورٹی کے نئے چیلنجز

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مارچ میں پاکستان میں کیے گئے حملوں کی تفصیل جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارچ میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں کل 42حملے کیے گئے جس میں 58افراد جاں بحق جبکہ 70زخمی ہوئے۔ جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقے شامل ہیں جو پچھلی دو دہائیوں سے شرپسندوں کا ٹارگٹ ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شدت پسند عناصر قلیل مدت میں ریاست مخالف سیٹ اَپ تشکیل دے چکے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی قوم کو اس کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے حالانکہ اس سے قبل دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا جا چکا تھا اور پاکستان نے دہشت گردی کی بھاری قیمت ادا کی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے محفوظ ہیں نہ ہی قبائلی اضلاع میں امن قائم ہے بلکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے متعدد شہر شدت پسندوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے مارچ میں حملوں کی جو رپورٹ جاری کی ہے‘ اگر اسے نظر انداز کر دیا جائے تب بھی دہشت گردی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو ا ہے۔ مارچ میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی پر افغان سرحدی گزر گاہ کے قریب واقع وزیرستان کے علاقے انگور اڈہ میں فائرنگ کی گئی جس میں وہ اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے۔ برگیڈیئر مصطفی کمال برکی پر حملہ چند حوالوں سے غور طلب ہے‘ انہیں اب بھی نہ سمجھا گیا تو ہمیں بڑے خطرات کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق آرمی پبلک سکول کے ملزمان کی گرفتاری میں بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کا اہم کردار تھا‘ اس لیے وہ ٹی ٹی پی کی ہِٹ لسٹ پر تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جب مذاکرات کا دور شروع ہوا تو بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی اس مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔ بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کو کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی اہم ذمہ داری سونپنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کیونکہ ان کا تعلق وزیرستان کے علاقے لدھا سے تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی اپنی سکیورٹی سے غافل تھے‘ جس وقت ان پر فائرنگ کی گئی ان کے ساتھ آٹھ سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ ظاہر ہے شدت پسندوں نے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے کئی ماہ تک پلاننگ کی ہو گی‘ جب دہشت گرد بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی جیسے اہم افسر کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانا ان کیلئے کس قدر آسان ہدف ہوگا۔
ہفتہ کے روز پاک ایران سرحد پر معمول کے گشت کے دوران پاک فوج کے جوانوں پر دہشت گردوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں چار جوان شہید ہوئے۔ پاک افغان سرحد اور بلوچستان کے بعد اب ایرانی سرحد بھی ہمارے لیے غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ مردان میں پیش آنے والے واقعے میں اگرچہ بڑا نقصان تو نہیں ہوا مگر اس وقوعے نے سکیورٹی اداروں کیلئے کئی طرح کے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں۔ مردان میں دو روز قبل سی ٹی ڈی نے انتہائی مطلوب شدت پسند کی قیام گاہ کا کھوج لگا کر چھاپہ مارا تو وہ مسجد کی بالائی منزل میں تھا۔ ایک سیکورٹی اہلکار اوپر گیا تو سی ٹی ڈی کو مطلوب مولوی فواد نامی شخص نے اہلکار پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے تبادلے میں اگرچہ مولوی فواد بھی مارا گیا۔ خیبرپختونخوا پولیس نے مردان میں شہید اہلکار کی نماز جنازہ کے بعد پچھلے تین ماہ کے دوران ہونے والے حملوں کی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق تین ماہ میں 125پولیس اہلکار شہید جبکہ 212 زخمی ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پولیس اہلکاروں پر شدت پسندوں کے پے در پے حملے اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال نہایت خراب ہو چکی ہے۔
دوسری جانب چند روز کے دوران اقلیتی برادری کے تین افراد کو ٹارگٹ کلنگ میں بے رحمانہ طریقے سے قتل کیا جا چکا ہے۔ پشاور کے سردار دیال سنگھ‘ کاشف مسیح جبکہ کراچی کے ڈاکٹر بیربل گیانی کے قتل کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سکیورٹی معاملات ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں مگر اہلِ سیاست کو فرصت نہیں کہ وہ اس اہم معاملے کی طرف توجہ دے سکیں۔ سیاستدان اپنی جنگ میں مصروف ہیں۔ پہلے معاشی بحران تھا اب آئینی بحران نے سر اٹھا لیا ہے۔ ہم اپنے اندرونی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں‘ ایسے حالات میں دنیا ہم پر کیسے اعتبار کرے گی؟
وزیرخزانہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے پیکیج بحالی کی متعدد تاریخیں دے چکے ہیں۔ وزیر خزانہ ستمبر 2022ء کو ملک واپس آئے تو انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر معاملات ملکی معاشی چلانے کی کوشش کی مگر جب بحران کم نہ ہوا تو انہوں نے دسمبر 2022ء میں آئی ایم ایف سے پیکیج کیلئے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ نویں جائزے کیلئے پاکستان کی کارکردگی مکمل ہے‘ آئندہ کچھ ہی روز میں پروگرام بحال ہو جائے گا۔ شدید کوشش کے باوجود مذاکرات جنوری کے آخر میں شروع ہوئے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے نہایت سخت شرائط رکھتے ہوئے کہا کہ اگلی قسط کے اجرا سے قبل ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہو گا۔ حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کی ایما پر شرائط پوری کر دیں‘ جس کے بعد مہنگائی میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو گیا۔ اب امید تھی کہ آئی ایم ایف سے پیکیج کا حصول ممکن ہو پائے گا مگر متعدد بار کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہو پائی۔ اب آئی ایم ایف حکام نے شرط عائد کی ہے کہ 30جون تک دوست ممالک سے فنانسنگ کی تحریری یقین دہانی کرائی جائے۔ حکومت اب سعودی عرب‘ قطر اور یو اے ای سے تحریری یقین دہائی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وزیر خزانہ اور حکومت پُر امید ہیں کہ جلد دوست ممالک سے تحریری ضمانت مل جائے گی؛ تاہم وزیرخزانہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے بغیر رہنا سیکھنا ہو گا۔ تمام مطالبات اور کڑی شرائط پوری کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی بنیادی وجہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ سرد رویہ ہے۔ امریکہ ہمیں چینی بلاک کا حصہ سمجھتا ہے۔ چین اور امریکہ کی بڑھتی کشیدگی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ امریکہ غیر محسوس انداز میں ہمارے معاملات پر اثر انداز ہو کر ہمیں پیغام دے رہا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکی بلاک سے نکلنے کی کوشش کی تو پاکستان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوست ممالک سے فنانسنگ کی تحریری ضمانت کے پیچھے یہی حقائق کارفرما ہیں۔ امریکہ اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ عرب ممالک اس کی ایما کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے‘ اس لیے پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ ایک طرف ہمیں عالمی قوتوں کی ناراضی کا خطرہ ہے جبکہ دوسری طرف دیرینہ‘ ہمسایہ اور مخلص دوست چین ہے۔ سی پیک جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے‘ وہ بھی چین کا مرہون منت ہے۔ ایسے حالات میں لازمی طور پر پاکستان چین ہی کا انتخاب کرے گا۔ شاہ سلمان کی میاں نواز شریف کو دورۂ سعودی عرب کی دعوت بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی قربتیں اور انہیں قریب لانے والے ممالک قطعی طور پر امریکہ کو قبول نہیں ہیں۔ حالات و واقعات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم درحقیقت چینی بلاک میں شامل ہونے کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سکیورٹی مسائل پیدا کرکے سی پیک کو سبوتاژ کرنے اور طالبان سے انتقام لینے کی آڑ میں خیبرپختونخوا میں حالات خراب کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کی مخالفت کے باوجود چین کے کیمپ میں رہتا ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھتا ہے تو پھر ہمیں سکیورٹی مسائل کیلئے بھی تیار رہنا ہو گا۔ ہمیں آئی ایم ایف اور امریکہ کے بغیر جینا سیکھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں