"RS" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کیخلاف آپریشن‘ کب کیا ہوا؟

قومی سلامتی کونسل میں سول و عسکری قیادت نے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ بدامنی کا راستہ روکنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے یہ آپریشن کس قدر ضروری اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں‘ اسے سمجھنے کیلئے ماضی میں کیے گئے ملٹری آپریشنز کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ریاست حتی الامکان کوشش کرتی ہے کہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے لیکن جب حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں تو جس طرح ایک سٹیج پر آ کر ناسور کا آپریشن ضروری ہو جاتا ہے‘ اسی طرح ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
قبائلی اضلاع میں دو دہائیاں قبل زندگی کے تمام خوبصورت رنگ موجود تھے‘ قدرتی حسن سے مالا مال ان علاقوں کے باسیوں کا طرز زندگی سادہ تھا‘ انہیں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سہولیات میسر نہ تھیں مگر یہ لوگ اپنے علاقوں میں خوش تھے۔ انہیں پاک افغان سرحد کے بلاتنخواہ کے سپاہی بھی کہا جاتا تھا‘ پھر نائن الیون کا واقعہ پیش آیا۔ امریکہ نے اپنے حواریوں کیساتھ افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں کا امن بھی غارت ہو گیا۔ جن علاقوں کے عوام کی میزبانی کے چرچے تھے‘ ان علاقوں میں جانا دشوار ہو گیا بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ اپنے گھروں کے مالک عزت دار لوگ خیمہ بستیوں میں ٹھہرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ اپنے جغرافیہ کے اعتبار سے یہ علاقے شدت پسندوں کی آماجگاہ بن گئے تھے۔ جب عام شہریوں کی زندگی متاثر ہونے لگی تو ریاست نے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے سخت فیصلے کیے۔
مشرف دورِ میں اکتوبر سے دسمبر 2007ء تک ''آپریشن راہِ حق‘‘ کے نام سے سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا کیونکہ وہاں مولانا صوفی محمد نے تحریک نفاذِ شریعت محمدی شروع کر رکھی تھی۔ ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات‘ دیر‘ بونیر‘ اور چترال میں اس تنظیم کا کافی اثر و رسوخ تھا۔ یہ تحریک صوفی محمد کے حلقۂ احباب میں برسوں سے جاری تھی تاہم 1999ء میں نمایاں ہونا شروع ہوئی کیونکہ تب تک مولانا صوفی محمد نے کھل کر عوامی اجتماعات میں اپنے ایجنڈے کا اظہار اور ریاست مخالف بیانات دینا شروع کر دیے تھے۔ جنوری 1999ء کو تیمر گرہ میں ایک اجتماع میں اعلان کیا گیا کہ اگر حکومت نے ہماری شرائط تسلیم نہ کیں تو ہم حکومت مخالف تحریک کا اعلان کر دیں گے۔ ان کی ایک شرط عدالتی نظام پر عدم اطمینان کے اظہار سے متعلق بھی تھی جب ریاست کو اس تحریک سے خطرات لاحق ہونا شروع ہوئے تو مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ مولانا صوفی محمد نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کی شرائط کو تسلیم نہ کیا گیا تو وہ افغان طالبان کی طرز پر حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیں گے۔ سکیورٹی اداروں کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ تحریک نفاذِ شریعت محمدی کی آڑ میں بیرونی ایجنٹ پاکستان میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کی شخصی آزادی مجروح ہونے کی رپورٹس موصول ہونے لگیں۔ خواتین پر بالخصوص طرح طرح کی خود ساختہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اسی دور میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند ہوئے۔ اس تنظیم کے لوگ اگرچہ مٹھی بھر تھے مگر اس کے باوجود خوف و ہراس کی فضا قائم تھی۔ اس تحریک کو مضبوط کرنے میں صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ کا کردار بڑا اہم تھا۔ جب متعدد بار کی کوششوں کے باوجود مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے تو مشرف حکومت نے اکتوبر 2007ء میں ''راہِ حق‘‘ کے نام سے آپریشن شروع کیا۔ اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے حوالے سے اسے پہلا ملٹری آپریشن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے پہلے افواج پاکستان نے جو جنگیں لڑیں‘ وہ بیرونی محاذوں پر تھیں۔
آپریشن راہِ حق بہت محدود پیمانے پر کیا گیا تھا‘ اس لیے سوات اور ملحقہ علاقوں میں امن قائم نہ ہو سکا۔ بہت کم مدت میں شدت پسند دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ تب پرویز مشرف جا چکے تھے‘ وفاق میں پیپلز پارٹی جبکہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت تھی۔ 2009ء میں صوبائی حکومت ملاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت کی شرط تسلیم کر لیتی ہے جس کے بعد صوبائی حکومت اور مولانا صوفی محمد کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے مگر امن قائم ہونے کے بجائے صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے۔ مولانا صوفی محمد اور ان کے داماد ملا فضل اللہ طاقت کے زور پر اپنے مطالبات منوانے پر مصر رہتے ہیں۔ ریاست مجبوراً ''آپریشن راہِ راست‘‘ کا آغاز کردیتی ہے۔ شدت پسندوں کے خلاف دوبارہ کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ 2007ء کے آپریشن راہِ حق میں سرزد ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپریشن کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے شدت پسند ملاکنڈ ڈویژن سے نکل کر وزیرستان کو اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔ اس لیے جولائی 2009ء میں ''آپریشن راہِ نجات‘‘ کا آغاز ہوتا ہے تاکہ شدت پسندی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ اگست 2009ء میں امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے سربراہ بیت اللہ محسود مارے جاتے ہیں۔ ان ملٹری آپریشنز کے بعد ردِعمل کے طور پر دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے ہونے لگتے ہیں۔ اسی فضا میں 2013ء کے انتخابات ہوجاتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے حکمت عملی تبدیل کی اور ایک بار پھر شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی بات سامنے آئی۔ فریقین کے جانب سے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ حکومتی کمیٹی میں حبیب اللہ خان خٹک‘ ارباب محمد عارف‘ فواد حسن فواد اور پی ٹی آئی کے رستم شاہ مہمند شامل تھے جبکہ طالبان کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی میں پروفیسر ابراہیم خان‘ مولانا یوسف شاہ اور مولانا عبدالحئی شامل تھے۔ کئی ماہ تک مذاکرات کا دور چلتا رہا۔ کالعدم ٹی ٹی پی اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہ تھی۔ جون 2014ء میں ''آپریشن ضربِ عضب‘‘ کا فیصلہ ہوتا ہے مگر مذاکرات کو آخری موقع دیا جاتا ہے۔ اسی دوران آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ہو جاتا ہے‘ کالعدم ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو سوال اٹھتے ہیں کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ پشاور میں اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد شدت پسندوں کے خلاف ''آپریشن ضرب عضب‘‘ دوبارہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے جنرل راحیل شریف کو وسیع اختیارات حاصل تھے۔ ان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔
شدت پسندی کے خاتمے میں آپریشن ضرب عضب کا اہم کردار تھا۔ اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آنے لگی‘ جب شدت پسندوں کیلئے پاکستان کے قبائلی اضلاع محفوظ ٹھکانہ نہ رہے تو وہ افغانستان منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ 2014ء سے 2017ء تک کا دور قدرے پُرامن رہا۔ 2017ء میں ''آپریشن ردالفساد‘‘ کا آغاز ہوا تاکہ شدت پسندوں کی باقیات کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ عسکری قیادت نے بہترین حکمت عملی کے ذریعے دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا تاہم 2021ء میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے جو پالیسی اپنائی‘ اس سے شدت پسندوں کو پاکستان میں دوبارہ مضبوط ہونے کا موقع مل گیا۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیچھے کہیں نہ کہیں پی ٹی آئی کی نرم پالیسی کار فرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی محمد‘ ملا فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود کی سوچ آج بھی مفتی نور ولی کی شکل میں موجود ہے۔ آج طالبان جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہیں‘ وہ سوشل میڈیا پر ٹویٹر اور دیگر ٹولز کو استعمال کر رہے ہیں۔ رواں مہینے میں سول و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف ایک بار پھر جامع آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹارگٹڈ آپریشن ہی اس ناسور کا دیرپا حل ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ اس آپریشن کے بعد شدت پسندوں کو دوبارہ مضبوط ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں