اقوامِ عالم کی تاریخ تنازعات سے بھری پڑی ہے‘ کوئی ملک‘ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکے کہ وہاں تنازعات کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سچ تو یہ ہے کہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد ہی قوموں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں کیونکہ انہوں نے مشکلات سے سبق سیکھا اور غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم کیا‘ آج وہ اقوام ترقی یافتہ ممالک کہلاتی ہیں۔ اس کے برعکس ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ مشکل حالات آئے تو ہم نے وقتی اور عارضی بندوبست سے کام چلایا‘ کچھ عرصے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جہاں تھے‘ وہاں سے دو قدم پیچھے چلے گئے۔ ترقی کے بجائے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری۔ اس تنزلی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم غلطیوں کو دہرانے کے عادی ہو چکے ہیں‘ ہم ہر کچھ عرصے کے بعد نئے تجربات کرتے ہیں مگر ان سے سیکھتے نہیں ہیں۔ اقتدار میں آنے والی جماعتیں یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ شاید ان کا اقتدار کبھی ختم نہیں ہوگا‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اپوزیشن کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھورا ہے‘ امورِ سلطنت کی انجام دہی کیلئے اپوزیشن سے مشاورت کو ضروری نہیں سمجھا جاتا حتیٰ کہ اپوزیشن کے بغیر قانون سازی تک کر لی جاتی ہے۔ اپوزیشن کا رویہ بھی مایوس کن ہوتا ہے کیونکہ اپوزیشن ایوان کے اندر رہ کر اپنا جمہوری حق اور کردار ادا نہیں کرتی۔ سیاسی قائدین کے رویوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے تنازعات کبھی ختم ہونے والے نہیں کیونکہ جب اہلِ سیاست ایک ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے تو تنازعات کیسے ختم ہوں گے؟
ماضی میں جب بھی تنازعات جنم لیتے تھے تو کچھ عرصہ کے بعد حالات معمول پر آ جاتے تھے‘ بحران ختم ہو جاتا تھا‘ کوئی سیاسی جماعت‘ سیاسی شخصیت یا مقتدرہ مصالحت و ثالثی کا کردار ادا کرتی اور گلے شکوے ختم ہو جاتے۔ آج صورتحال یکسر مختلف ہے‘ کوئی بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے‘ کوئی ثالثی کیلئے سامنے آنے کیلئے تیار نہیں ہے تو بحران کیسے ختم ہو؟ بارہ سو کے قریب نمائندے منتخب ہو کر سینیٹ‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جاتے ہیں‘ قومی اسمبلی میں 342‘ سینیٹ میں 100‘ پنجاب اسمبلی میں371‘ خیبرپختونخوا میں 145‘ سندھ میں 168 جبکہ بلوچستان میں 65افراد منتخب ہو کر ایوان کا حصہ بنتے ہیں۔ غیرمنتخب نمائندوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے‘ اس بڑی تعداد میں کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جو مشکل حالات میں اہلِ سیاست کو جمع کر دے۔
ملکی سیاسی تاریخ کی ورق گردانی سے کئی بڑی آل پارٹیز کانفرنسیں نظر آتی ہیں‘ ان میں سے کئی ملک و قوم کیلئے مفید ثابت ہوئیں۔ 1973ء کا متفقہ آئین دراصل سیاسی جماعتوں کے اتفاق و اتحاد کے بعد وجود میں آیا تھا۔ اسی طرح مئی 2006ء میں میثاقِ جمہوریت ابتدائی طور پر دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان طے پایا تھا بعدازاں دوسری جماعتیں بھی اس میثاق کا حصہ بن گئیں۔ ماضی قریب میں آرمی پبلک سکول پر انتہا پسندوں کے حملے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں عمران خان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔ جنوری 2023ء کو پشاور پولیس لائن حملے میں ایک سو سے زائد افراد شہید ہوئے‘ وزیراعظم شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کیا مگر عمران خان صاحب نے شرکت سے انکار کیا۔ اے پی سی کے انعقاد سے چند روز پہلے چھ فروری کو ترکیہ میں شدید زلزلہ آیاجس میں جانی و مالی نقصان کو دیکھتے ہوئے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس مؤخر کر دی‘ اب ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ عیدالفطر کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت میں کل جماعتی کانفرنس کا امکان ہے‘ جس کا یک نکاتی ایجنڈا الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں‘ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تو سینیٹر سراج الحق کو مثبت جواب دیا کہ وہ 23کروڑ عوام کے وزیراعظم ہیں‘ اس لیے وہ موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے دوسروں سے آگے کھڑے ہوں گے‘ انہوں نے سینیٹر سراج الحق کی کوششوں کو سراہا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ اس ملاقات میں سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے۔ اس کے برعکس خان صاحب نے گلے شکوے کیے کہ وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں مگر بدعنوان اور قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ نہیں۔ دیکھا جائے تو خان صاحب نے ہمیشہ اسی رویے کا اظہار کیا ہے‘ جون 2022ء میں جب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے‘ تب بھی تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے اسی رویے کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ گرینڈ ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں مگر پہلے الیکشن کی تاریخ دی جائے۔ کیا گرینڈ ڈائیلاگ میں ہی الیکشن کی تاریخ فائنل نہیں کی جا سکتی؟ آپ آئیں تو سہی‘ جو بات کانفرنس میں کی جا رہی ہے‘ یہی بات آمنے سامنے بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
اہلِ سیاست نے کبھی بھی اپنے دروازے مخالفین کیلئے بند نہیں کیے۔ اب بھی لگتا ہے کہ برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے تحریک انصاف نے تین رکنی مذاکراتی کمیٹی بنا دی ہے جس میں سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک‘ اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید شامل ہیں‘ یہ کمیٹی جماعت اسلامی سے مذاکرات کرے گی۔ پرویز خٹک کو مذاکرات کا ماہر سمجھا جاتا ہے‘ امید کی جانی چاہیے کہ بات تین رکنی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ قومی سطح کے مذاکرات میں خان صاحب خود شامل ہوں گے‘ اگر خان صاحب مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہوتے ہیں تو یہ مشقِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
سراج الحق صاحب عید کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کریں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک ہی دن الیکشن کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں سینیٹر یوسف رضا گیلانی‘ سید نوید قمر اور قمر زمان کائرہ شامل ہیں۔ یہ کمیٹی حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے پر آمادہ کرے گی۔ پیپلزپارٹی کی نامزد کردہ کمیٹی میں بھی ایسی شخصیات شامل ہیں جو مسائل کا حال نکالنا جانتی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں‘ اس بارے فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم سیاسی جمود کے خاتمے کیلئے جماعت اسلامی کی کوششوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس وقت اگرچہ جماعت اسلامی کی قومی اسمبلی میں ایک نشست ہے مگر جماعت اسلامی کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن بھی تو نہیں ہے‘ اس لیے کہ تقریباً تمام بڑی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں جن پر خان صاحب اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی ہی واحد آپشن کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان مذاکرات کے پیچھے اگر کچھ عوامل کارفرما ہیں یا جماعت اسلامی کو کہیں سے اشارہ ملا ہے تب بھی مذاکرات کی حمایت کی جانی چاہیے کیونکہ ملک مزید انتشار اور تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔