جمہوریہ ازبکستان میں نئے آئین کیلئے 30 اپریل کو ریفرنڈم ہونا ہے‘ دنیا بھر کے زعما اور صحافیوں کو اس اہم موقع پر شرکت کی دعوت دی گئی ہے‘ میں بھی چند روز سے ازبکستان میں موجود ہوں۔ ازبکستان کے نئے مجوزہ آئین میں انسانی حقوق اور فرد کی آزادی کو ہر چیز پر مقدم رکھا گیا ہے۔نئے آئین کے مسودے کے مطابق انسانی عزت اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ آئین میں ترا میم کیلئے ریفرنڈم کا مرحلہ تو اب آیا ہے ‘اس سے چند برس پہلے ہی جمہوریہ ازبکستان نے انسانی حقوق کیلئے عملی اقدامات اٹھانے شروع کر دیے تھے۔ آئین میں ترامیم کا بنیادی مقصد شخصی آزادی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ سماجی اور ثقافتی حقوق کیساتھ ساتھ پائیدار ترقی کے میدان میں تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے ‘اس ضمن میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کو اپنایا گیا ہے۔ ازبکستان کا موجودہ آئین 1992ء سے نافذ العمل ہے جس کے نصف سے زیادہ‘ تقریباً 65فیصد حصے میں ترامیم کی جا رہی ہیں۔ حالیہ آئینی ترامیم کے پیچھے ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف کا ویژن ہے۔ دستاویز کی تیاری میں ڈھائی لاکھ کے قریب شہریوں کی جانب سے تجاویز موصول ہوئیں۔ ازبکستان میں ہونے والی آئینی اصلاحات کی تمام تر تفصیل تحریر کرنے کیلئے الگ کالم کی ضرورت ہے‘ تاہم ازبکستان کے عوام و خواص سبھی آئینی ترامیم پر بہت خوش ہیں۔ وہ آئینی ترامیم میں سنہرا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ مجوزہ آئین کے ریفرنڈم کی تقریبات میں شمولیت سے اندازہ ہوا کہ ترامیم کی تیاری سے قبل اقوام متحدہ سے مکمل رہنمائی لی گئی اوراقوام متحدہ کے وفود نے ازبکستان کا دورہ کر کے اطمینان کا اظہار کیا۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک اور مہذب معاشروں میں انسانی حقوق سے متعلق اصولوں کو اپنایا گیا۔ آئینی ترمیم کے بعد ازبکستان سینٹرل ایشیا کا پہلا ملک بننے جا رہا ہے جہاں انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ساڑھے تین کروڑ آبادی کا ملک ازبکستان سماجی و معاشی ترقی کیلئے آئین کا پورا ڈھانچہ تبدیل کرنے کو تیار ہے‘ مگر دوسری طرف پاکستان جیسا 22 کروڑ آبادی کا حامل ملک ہے جہاں ملکی اور عوامی مفاد کیلئے آئین سازی‘ آئین میں ترامیم انتہائی مشکل عمل بنا دیا گیا ہے۔ جسمانی طور پر میں تاشقند میں ہوں‘ مگر ذہنی اعتبار سے پاکستان میں۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابات کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے مذاکرات کا عمل شروع ہونا اہم پیش رفت ہے۔ سیاسی رہنما جب مل بیٹھیں گے تو کچھ گلے شکوے ہوں گے مگر آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیں گے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مذاکرت میں بہت دیر کر دی گئی۔ جمعرات 27 اپریل کو حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ہوا‘ تحریک انصاف کے وفد میں شاہ محمود قریشی‘ فواد چودھری اور بیرسٹرعلی ظفر شامل تھے۔ انہوں نے تین شرائط پیش کیں‘ رواں برس مئی میں قومی اور دو صوبائی اسمبلیاں یعنی سندھ اور بلوچستان تحلیل کر دی جائیں‘ 14 مئی کو انتخابات نہیں کرانے تو ایک ساتھ انتخابات کیلئے آئین میں ترمیم کی جائے‘ آئینی ترمیم کیلئے پی ٹی آئی اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفے واپس لینا ہوں گے۔ تحریک انصاف کی تیسری شرط میں کہا گیا کہ رواں برس جولائی میں الیکشن کرائے جائیں۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد بھی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ‘ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت تو سرے سے مذاکرات کا حصہ ہی نہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی سہولت کاری میں مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ مولانا فضل الرحمان نے کسی حد تک شمولیت کا اشارہ بھی دے دیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت اور اپوزیشن سے چار چار افراد کے نام کیلئے خطوط ارسال کئے تو تحریک انصاف کا نیا مؤقف سامنے آ گیا‘ پی ٹی آئی نے جوابی خط میں اصرار کیا کہ عمران خان نے مذاکرات کیلئے جو تین رکنی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے اسی کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں‘ یوں حکومت کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا اور سینیٹ سیکرٹریٹ کے بجائے قومی اسمبلی کے کمیٹی روم میں مذاکرات آغاز ہوا۔ اس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ مذاکرات کا حصہ نہیں بن رہے۔
28 اپریل کو مذاکراتی کمیٹی کے خصوصی وفد کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہوا جس میں مذاکراتی کمیٹی نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی ملاقات کی‘ دونوں طرف سے معاملات میں مثبت پیش رفت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے‘ شاہ محمود قریشی کے بقول اچھے ماحول میں گفتگو ہوئی اور ہم نے مناسب پیش رفت حاصل کر لی ہے‘ جس پر عمران خان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے یہاں تک کہا کہ منگل دو مئی کو ہونے والا مذاکرات کا تیسرا دور فائنل ہو سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور بجٹ پیش کرنے کے بعد اسمبلیاں تحلیل کرنے کی پیشکش کی گئی ہے‘ ستمبر میں انتخابات کی بازگشت ہے۔ دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اور بجٹ دونوں قومی نوعیت کے مسائل ہیں انہیں ہر صورت پورا ہونا چاہئے‘ اگر اس سے پہلے الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو ملک کا نقصان ہو سکتا ہے اس لئے پی ٹی آئی کو ٹھنڈے دل سے سوچ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے‘ مگر مذاکرات میں اعلیٰ قیادت کی شمولیت نہ ہونے کی وجہ سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔اپوزیشن کا مذاکراتی وفد خان صاحب سے رجوع کرنے پر مجبور ہے جبکہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے سامنے ساری صورتحال رکھتی ہے‘ مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں نواز شریف کو مذاکرات کے عمل سے آگاہ رکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب خان صاحب لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔وہ فوری طور پر اسمبلیوں کی تحلیل کے مؤقف پر قائم ہیں‘ ایسے حالات میں خدشہ ہے کہ مذاکرات وقت کا ضیاع ثابت نہ ہوں۔ اگر ایسا ہوا تو مسائل انتہائی گمبھیر ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات اور اس کے لیے فنڈز کے اجرا کا حکم پارلیمان کی طرف سے تین بار مسترد کرنے کے بعد قومی اسمبلی سے وزیراعظم شہبازشریف کو اعتماد کے ووٹ سے بظاہر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ وزیراعظم مضبوط ہیں مگر گفت و شنید کے دوران گرفتاریوں کا سلسلہ مذاکرات کو سبوثاژ کرنے کے مترادف ہے۔ اینٹی کرپشن اور پولیس کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پر چھاپے سے تلخیاں بڑھیں گے‘ ممکن ہے یہ تلخیاں فریقین کو مذاکرات سے دور لے جائیں۔تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اس سے قبل یہ شرط بھی پیش کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنان کو پہلے رہا کیا جائے پھر مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات وقت کا تقاضا ہیں‘اور یہ سیاسی جماعتوں کی دانش کا امتحان ہے کہ وہ مذاکرات کو کیسے کامیاب بناتی ہیں۔ تاشقند میں خوش اسلوبی سے قومی معاملات اور آئینی ترامیم کا عمل ہوتا دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ایساماحول کب بنے گا؟