ازبکستان میں آئینی ترامیم کے لیے ریفرنڈم کا عمل خوشگوار ماحول میں مکمل ہو چکا ہے‘ حتمی نتائج ابھی آنا باقی ہیں جس کے لیے تین روز کا وقت درکار ہے۔ ازبکستان میں ہونے والے ریفرنڈم کے کئی قابلِ تقلید پہلو ہیں۔ آئین میں ترامیم سے پہلے مسودہ میڈیا میں شائع کیا گیا۔ عوام کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔ تقریباً ڈھائی لاکھ افراد نے تجاویز کی صورت اپنی آرا ارسال کیں۔ یوں ماہرین اور عوام کی حمایت کے بعد ریفرنڈم کرایا گیا جس میں عوام کی کثیر تعداد نے حصہ لیا۔ ریفرنڈم کے لیے 50فیصد ٹرن آؤٹ لازمی قرار دیا گیا تھا؛ تاہم 30اپریل کو پولنگ کا وقت ختم ہونے تک مجموعی طور پر 70فیصد جبکہ بعض علاقوں میں 80فیصد سے زائد ٹرن آؤٹ رہا‘ جس کا اظہار ڈپٹی کمشنر نے میڈیا کے سامنے کیا۔ ازبکستان میں ہونے والے ریفرنڈم کے عمل کو دیگر مبصرین کی طرح ہمیں بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ اس موقع پر ازبکستان میں 45ممالک اور 14بین الاقوامی تنظیموں کے 383سے زائد مبصرین موجود تھے۔ شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ملکی و غیرملکی میڈیا کے سینکڑوں افرادکو ہر جگہ رسائی حاصل تھی۔ ووٹرز کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا حتیٰ کہ وہ معذور افراد جو پولنگ سٹیشن پر نہیں آ سکتے تھے‘ ان کی آسانی کے لیے ہر پولنگ سٹیشن پر ایسا عملہ تعینات کیا گیا جو معذور افراد کے گھر جا کر انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت فراہم کرے۔ پولنگ عملہ انتہائی تربیت یافتہ تھا۔ ہر ووٹر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ پولنگ عملہ سے پوچھے کہ اس وقت کتنے ووٹ پول ہوئے ہیں؟ کمپیوٹرائز ووٹنگ کا نظام متعارف کرایا گیا یعنی شہریوں کو کسی بھی شہر سے اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت موجود تھی۔ میرے لیے ازبکستان کے ریفرنڈم میں بہت کچھ ایسا تھا جو ہمیں اپنے ملک میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
جن پولنگ سٹیشنوں پر ہمیں جانے کا موقع ملا وہاں اس بات کو محسوس کیا کہ ایک مہذب قوم کے طور پر لوگ نہایت شائستہ انداز میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی میڈیا پر کسی قسم کا ہنگامہ نہیں تھا‘ نہ ہی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی رخنہ ڈالا گیا۔ ازبکستان میں آئینی ترامیم کے عمل کو دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمیں دنیا سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں جب کوئی بحران سر اٹھاتا ہے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔
چند برس پہلے تک اہلِ سیاست کو شکوہ تھا کہ مارشل لا لگنے سے جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا۔ اہلِ سیاست کہا کرتے تھے کہ اگر جمہوریت کو مسلسل دو یا تین ٹینور موقع مل گیا تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس وقت سیاست دانوں کا یہ موقف درست معلوم ہوتا تھا کیونکہ پاکستان میں مارشل لاؤں کی طویل تاریخ ہے مگر اب اہلِ سیاست کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے‘ اس لیے کہ پچھلے 15 برسوں سے ملک میں جمہوری سسٹم ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اسی عرصے کے دوران خطے کے دیگر ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ بقول منیر نیازی ہماری صورتحال کچھ یوں ہے کہ
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
آئینی بحران نے پورے نظام کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔ 1973ء کا آئین کہنے کی حد تک متفقہ ہے مگر آئین کی من پسند تشریح کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہر جماعت اپنی مرضی کے مطابق آئین کی تشریح کر رہی ہے۔ قانونی ماہرین کی آرا تقسیم ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھی تقسیم کا تاثر موجود ہے۔ آرا کا اختلاف انسانی معاشرے کا حصہ ہے مگر اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرنا افسوس ناک امر ہے۔ جب تک ہر فریق خود کو درست سمجھتا رہے گا‘ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ معاملہ اسی صورت حل ہوگا جب تمام شراکت دار ایک جگہ پر بیٹھ کر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اہلِ سیاست عوام کے منتخب نمائندہ ہیں‘ عوام نے انہیں اس لیے مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ ایوان کے اندر قانون سازی کے ذریعے ملک کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالیں۔ جمہوری سسٹم میں قانون سازی کا بہترین طریقہ کار موجود ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے آئین میں ترمیم اور قانون سازی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں مگر بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصہ میں معاملات کو ایوان سے باہر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ منتخب عوامی نمائندوں کا معاملات کو ایوان سے باہر حل کرنا بذاتِ خود ایک خرابی ہے۔ سیاسی جماعتیں جب معاملات کو ایوان سے باہر حل کرنے پر اصرار کرتی ہیں تو دراصل وہ اپنے ایجنڈے اور مفادات کی تکمیل کے لیے یہ اقدام کر رہی ہوتی ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ جب معاملہ قومی اور اجتماعی نوعیت کا ہے تو پھر ایوان سے باہر اسے حل کرنے کی اجازت کیوں دی جائے؟ خرابی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے‘ اس کا ادراک نہ کیا گیا تو سیاسی کشیدگی ختم نہیں ہو سکے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جب تک اقتدار میں رہے یا اب جبکہ حکومت سے باہر ہیں تو وہ اپنے انداز سے معاملات کو چلانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ حکومت میں ان کا طرزِ عمل یہ تھا کہ اپوزیشن کو قانون سازی کے عمل میں شامل کرنے کے بجائے انہوں نے آرڈیننس سے کام چلانے کی کوشش کی‘ ان کے دورِ حکومت میں ریکارڈ آرڈیننس جاری ہوئے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے اسمبلیاں تحلیل کیں اور قومی اسمبلی سے استعفے دیے۔ اسمبلی سے باہر جانے کے بعد پھر قانون سازی کے عمل میں شرکت کیلئے اصرار کیوں؟ ظاہر ہے جو سیاسی جماعتیں ایوان کا حصہ ہیں‘ وہی قانون سازی کے عمل میں شریک ہوں گی۔
خرابیٔ بسیار کے بعد سیاسی کشیدگی ختم کرانے کے لیے مذاکرات پر زور دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اہلِ سیاست کو موقع دیا کہ وہ سیاسی معاملات کو آپس میں حل کر لیں لیکن اب تک مذاکرات کے جو ادوار ہوئے ہیں‘ وہ غیر تسلی بخش ہیں۔ اہلِ سیاست کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دونوں طرف سے برابر گولہ باری جاری ہے۔ اس رویے کیساتھ مذاکرات کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔ مذاکرات کی ناکامی ملک اور عوام کے لیے بدقسمتی ہو گی کیونکہ اہلِ سیاست کی ناکامی کے بعد ابتلا کا نیا دور شروع ہو گا۔
تحریک انصاف کی تمام تر توجہ اپنی مرضی کی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرانے پر مرکوز ہے‘ اگر پی ٹی آئی قیادت اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو کیا اس سے پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں‘ ہماری دانست کے مطابق سیاسی کشیدگی جس نہج پر پہنچ چکی ہے‘ اسے ختم کرنے کے لیے اہلِ سیاست کو جامع مذاکرات کی ضرورت ہے جو محض الیکشن کی تاریخ تک محدود نہ رہیں۔ ورنہ صورتِ حال یہ ہو گی کہ سانپ کو زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا ہے‘ جو موقع ملتے ہی پھن پھیلا لے گا۔ آئینی بحران کا خاتمہ کیے بغیر کوئی بھی حل عارضی ثابت ہو گا۔ ہم امریکہ اور یورپی ممالک جیسا نظام تو متعارف نہیں کرا سکتے‘ کم از کم ازبکستان سے ہی کچھ سیکھ لیں جہاں آئینی ترامیم کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے کر لیا گیا ہے۔