انتخابات کے انعقاد اور تاریخ کے تعین کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ سیاسی معاملات کو سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جائے‘ خوش آئند ہے۔ عدالت نے چاراپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے حکم صادر کیا تھا کہ 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کرائے جائیں اور انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت کو 27اپریل تک 21 ارب روپے کے فنڈز الیکشن کمیشن کو جاری کرنے کا حکم دیا گیا‘ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں گیا‘ پارلیمان نے تین بار فنڈز جاری کرنے کی تحریک کو مسترد کیا مگر معزز جج صاحبان نے برملا کہا کہ وہ 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے ‘جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ اگر عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو جس طرح ماضی میں وزرائے اعظم کے خلاف عدالتی کارروائی عمل میں لائی گئی اب بھی ایسی ہی کارروائی ہو سکتی ہے۔اتحادی جماعتیں اپنے مؤقف پر قائم رہیں‘ اس دوران عدالت کی تجویز اور بعض سیاسی رہنماؤں کے کہنے پر مذاکرات کا آغاز ہوامگر پاکستان تحریک انصاف چودہ مئی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹی‘ جبکہ مذاکرات کو بہت عجلت میں کرنے کی کوشش کی گئی۔برسوں کے گلے شکوے تین ملاقاتوں میں کیسے دور ہو سکتے ہیں؟ مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی اپنے تئیں یہ سمجھ رہی تھی کہ اسے سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے والا ہے‘ اسے امید تھی کہ چودہ مئی کو الیکشن کا فیصلہ برقرار رہے گا‘ سپریم کورٹ نے مگر معاملات کی حساسیت کا ادراک کیا اور معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ‘ بجٹ اور وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات کو کسی صورت پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے اب جبکہ بال دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک دی ہے تو معاملہ اب بھی مذاکرات سے ہی حل ہونا ہے ۔یہ خوش آئند ہے مگر مذاکراتی عمل میں عجلت کا مظاہرہ کر کے تحریک انصاف نے اپنی پوزیشن کو نقصان پہنچایا ہے‘ اب وہ زیادہ شرائط پیش نہیں کر سکے گی‘ بظاہر حکومتی جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہو ئی ہے۔
دوسری جانب چین کے وزیر خارجہ چن گانگ دو روزہ دورے پر پاکستان میں ہیں۔وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ اُن کا پہلا پاکستانی دورہ ہے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دو مقاصد ہیں۔ پہلے مرحلے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور چینی وزیر خارجہ کے درمیان پاک چین سٹریٹجک مذاکرات کے چوتھے دور میں سٹریٹجک کو آپریٹو پارٹنر شپ کی توثیق پر بات ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے میں سہ فریقی اجلاس ہو گا جس میں پاکستان‘ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سفری پابندی کے باعث اس اہم اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے تھے اس لئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن نے ایک درخواست کے ذریعے سلامتی کونسل کی 15رکنی کمیٹی کو خط لکھ کر امیر خان متقی کے دورۂ پاکستان اور وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے استثنا طلب کیا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ امیر خان متقی کے دورے کے تمام اخراجات پاکستان اٹھائے گا‘ جسے قبول کر لیا گیا۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے ازبکستان میں ہونے والے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی سلامتی کونسل کی جانب سے امیر خان متقی کو ازبکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
سیاسی و معاشی اعتبار سے مشکل حالات کے باوجود حکومت نے سفارتی محاذ پر کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ دورۂ بھارت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ خارجہ تعلقات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا۔ وزیر خارجہ کا دورۂ بھارت بارہ سال کے طویل وقفے کے بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل 2011ء کو وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ بھارت نے اگرچہ میزبانی کے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور حقائق کے برعکس دہشت گردی کو پاکستان سے منسوب کرنے کی کوشش کی مگر بلاول بھٹو زرداری نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کا دوٹوک مؤقف پیش کیا اور شائستہ اور ملفوف الفاظ میں پیغام دیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بھارتی رویے پر منحصر ہیں۔ وزیر خارجہ نے کشمیر پر پاکستان کے دوٹوک مؤقف کا اعادہ کیا کہ جب تک بھارت 5اگست 2019ء کے اقدام کو واپس نہیں لیتا تب تک بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں ہو سکتی۔ شنگھائی تعاون تنظیم چونکہ خطے کے ممالک کے مشترکہ مفادات کا فورم ہے اس لئے یہ ممکن نہ تھا کہ دو طرفہ مذاکرات پر کھل کر بات کی جاتی۔
پاک چین سٹریٹجک مذاکرات میں اس بات کے عزم کا اظہار کیا گیا کہ خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے افغانستان میں امن و استحکام نہایت ضروری ہے۔ پاکستان اور چین کی قیادت اس خواہش کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ افغانستان کو سی پیک میں شمولیت پر خوش آمدید کہیں گے۔ چینی وزیر خارجہ کے مطابق سی پیک سے پاکستان کو 20 ملین کی سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔ سی پیک کے مکمل ہونے والے منصوبوں کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر درپیش چیلنجز پر قابو پانے میں اور مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں گی۔پاکستانی عوام کو مضبوط معاونت کی ضرورت ہے اسی طرح سیاسی استحکام کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ دورۂ پاکستان کے موقع پر افغانستان کی سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے اہم پیش رفت کا قوی امکان ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت اور معدنی ذخائر خطے کی تجارت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان تجارتی مواقع سے مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں امن کا قیام ہو‘ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کا استعمال ہونا تاحال ایک چیلنج ہے‘ پاک افغان ملحقہ علاقوں میں بدامنی کے واقعات معمول بن چکے ہیں‘پارا چنار میں اساتذہ کے قتل کا اندروہناک واقعہ اور دہشت گردی کے دیگر واقعات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں۔ شاید یہی واقعات ہیں جس کی بنا پر سپریم کورٹ میں یہ استدعا کی گئی کہ ایسے حالات میں الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف اس طرح کے ناخوشگوار واقعات پورے خطے کا امن سبوتاژ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان افغانستان کے اندرونی حالات سے سب سے زیادہ متاثر اور نقصان اٹھانے والا ملک ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں قیامِ امن کا خواہاں رہا ہے۔ چین نے ہر فورم پر پاکستان کی دہشت گردی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے‘ مگر پی ٹی آئی نے چین جیسے مخلص دوست کو بھی ناراض کیا ‘ حالانکہ جدید دنیا میں بہترین سفارتکاری ہی معاشی ترقی کی بنیاد ہے۔اس عرصہ کے دوران بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سفارتکاری اور لابنگ کی‘ بھارت کی شاطرانہ چالوں کو کئی ممالک نے درست تسلیم کیا‘جبکہ ہم بروقت دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش نہیں کر سکے۔ پی ٹی آئی نے سفارتی محاذ پر جو کمزوری دکھائی‘ اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔موجودہ حکومت نے کامیاب سفارتکاری کے ذریعے ان اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے جس کا کریڈٹ وزیر خارجہ کو جاتا ہے۔ کامیاب سفارتکاری اسی صورت مفید ثابت ہو سکتی ہے جب اندرونی طور پر استحکام ہو ۔ امید ہے کہ اندرونی خلفشار کو بھی خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے گا۔