"RS" (space) message & send to 7575

سیاسی بحران میں بجٹ پیش

اتحادی حکومت نے اپنا دوسرا اور آخری بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ کا مجموعی حجم 14ہزار 460ارب روپے ہے۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور جن نامساعد حالات میں بجٹ پیش کیا گیا اس سے ٹیکسوں میں اضافے کی توقع کی جا رہی تھی مگر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا‘ تاہم حکومت عوام کو بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو پائی‘ ماسوائے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک بنیادوں پر 35فیصد تک اضافے کی منظوری کے۔ معاشی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ مالی بحران پر قابو پانے کیلئے آئی ایم ایف پیکیج کی بحالی ضروری ہے ورنہ مالی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ اربابِ اختیار بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اب مزید کسی آزمائش کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجٹ تشکیل دیا گیا ہے۔
مالی سال کا میزانیہ درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے‘ پہلے حصے میں رواں سال کا اقتصادی سروے پیش کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے میں آنے والے سال کے اہداف مقرر کئے جاتے ہیں‘ یوں دیکھا جائے تو بجٹ میں اقتصادی سروے کی بہت اہمیت ہے کہ حکومت نے اپنے لئے جو معاشی اہداف مقرر کئے تھے ان میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی؟ اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 2022-23ء اہداف کے حصول کے حوالے سے مایوس کن رہا ہے۔ سیاسی بحران کو اس ناکامی کی بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اتحادی حکومت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ناقص معاشی پلان اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذریعے ملک کو معاشی بحران میں دھکیلا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں مالی سال 2023-24ء کا بجٹ پیش کرنے سے پہلے 2017ء میں میاں نواز شریف کی حکومت اور 2022ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ اسحاق ڈار کے بقول 2017ء میں معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی‘ مہنگائی چار فیصد تھی‘ غذائی اشیا کی مہنگائی صرف دو فیصد تھی‘ پالیسی ریٹ ساڑھے پانچ فیصد‘ سٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020ء تک جی20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا۔ پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو پاکستان 24 ویں بڑی معیشت کے درجے سے 47 ویں نمبر پر آ گیا۔ بجٹ پیش کرتے وقت 2017ء کے اعداد و شمار پیش کرنا اور گزشتہ ڈیڑھ سال کی کارکردگی کا ذکر نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ معاشی بحران سنگین ہے۔
سنگین معاشی بحران کے باوجود حکومت نے کئی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں‘ کرنٹ اکاؤنٹ میں 76فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ تجارتی خسارہ 40 فیصد کمی کے بعد 43.4 ارب ڈالر سے 25.8 ارب ڈالر کی سطح پر آ گیا ہے۔ درآمدات کا کم حجم معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے‘ درآمدات میں 29.2 فیصد کمی اہم کامیابی ہے‘ اب 72.3 ارب ڈالر کے مقابلے میں درآمدات کا حجم 51.2 ارب ڈالر تک آ گیا ہے۔ حکومت کو قرضوں کا حجم کم کرنے میں مشکل اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں اگر ان اقدامات کی بدولت قرضوں کا حجم کم ہوتا ہے تو ہم معاشی بحران سے باہر نکل آئیں گے کیونکہ اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضے 592کھرب 40ارب روپے ہیں جبکہ بجٹ کا مجموعی حجم 144کھرب 60ارب روپے ہے‘ ہمارے قرضے بجٹ کی نسبت چار گنا زیادہ ہیں‘ ہم اگلے کئی برسوں تک قرض کے بوجھ تلے دبے رہیں گے۔ اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ ہمارے مسائل کی اصل وجہ بیرونی اور اندرونی قرضے ہیں۔
کسی حکومت میں قرضوں کی ادائیگی کی سنجیدہ سعی نہیں کی گئی۔ قارئین یاد کر سکیں تو پی ٹی آئی چیئرمین نے الیکشن 2018ء کی مہم میں بیرونی قرضوں پر خوب سیاست کی تھی‘ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے اپنے مقاصد کیلئے بیرونی قرضے حاصل کئے تھے‘ تاہم پی ٹی آئی کے دور میں جولائی2018 ء سے مارچ 2022 ء کے دوران قرضوں اور واجبات میں23ہزار665ارب روپے کا اضافہ ہوا‘ یہ کسی بھی دورِ حکومت میں سب سے زیادہ قرضے تھے۔ پاکستان میں ٹیکس نہ دینے کا رجحان پایا جاتا ہے‘سالانہ کروڑوں روپے آمدن والے افراد چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ایشیا میں پراپرٹی پر سب سے کم شرح ٹیکس پاکستان میں ہے‘ اس کے باوجود لوگ ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں۔زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت زراعت پر قائم ہے لیکن ہزاروں ایکٹر کے مالکان زرعی پیداوار پر ٹیکس نہیں دیتے نہ ہی حکومت کی طرف سے زرعی پیداوار پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ جب حکومت کے پاس ٹیکس وصولیاں کم ہوں گی تو وہ خسارے کو کہاں سے پورا کرے گی؟مارکیٹ ریسرچ کے عالمی ادارے Ipsos کے مطابق پاکستان میں سالانہ 956 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے‘ یہ بہت بڑی رقم ہے‘ ٹیکس چوری پر قابو پا کر کئی شعبوں کو بہتر کیا جا سکتا ہے‘ ہمیں اگلے مالی سال میں 25ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں‘ ٹیکس وصولی کے بغیر یہ بندوبست کیسے ہو گا؟وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں دو حوصلہ افزا باتیں کہی ہیں‘ ایک یہ کہ بجٹ تجاویز کو ڈیل کرنے کیلئے خصوصی کمیٹی بنائی جا رہی ہے دوسری یہ کہ پرائیویٹ اشتراک سے معیشت کا پہیہ چلایا جائے گا۔ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے سے ڈھائی ماہ قبل بجٹ پیش کرنا اتحادی حکومت کیلئے ایک چیلنج تھا مگر بجٹ پیش ہو گیا‘ بہرصورت بجٹ کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو عوام کے سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بجٹ پیش کئے جانے سے محض ایک روز قبل پی ٹی آئی چھوڑنے والے رہنما ''استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کے پرچم تلے جمع ہوئے۔نو مئی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد جہانگیر ترین متحرک ہوئے‘ ان کی چند روزہ محنت اب ''استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی کا مبینہ دھڑا نئے نام کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔الیکشن سے پہلے سیاسی دھڑوں کا سامنے آنا یا نئی سیاسی جماعت کی تشکیل کوئی نئی بات نہیں‘ ملک کی سیاسی تاریخ ایسے دھڑوں سے بھری پڑی ہے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے دھڑے کا نئی سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت اس لئے بھی پیش آئی کہ کوئی جماعت اتنی بڑی تعداد کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پندرہ بیس سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے مگر 100سے زائد نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکتی۔ استحکام پاکستان پارٹی کے تمام رہنما نو مئی سے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کے بیانیے اور انتخابی نعرے کے ساتھ کھڑے تھے‘ اب انہوں نے حب الوطنی اور استحکام پاکستان کا بیانیہ اپنایا ہے‘ کیا عوام نئے بیانیے کو قبول کر لیں گے؟ پی ٹی آئی کا ووٹرز کبھی بھی ان کی حمایت نہیں کرے گا‘ ان کا ذاتی اور شخصی ووٹ بینک کم ہے‘ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی بمشکل چند سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی۔ نو مئی کے واقعات نے پی ٹی آئی کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ بظاہر پی ٹی آئی کا الیکشن میں حصہ لینا اب مشکل ہو گا کیونکہ پورے ملک سے امیدواروں کا انتخاب آسان مرحلہ نہیں ہو گا‘ دوسری طرف پی ٹی آئی کے بغیر الیکشن میں جانے سے سوالات جنم لیں گے‘ فارمیشن کمانڈرزکانفرنس میں نو مئی کے واقعات کے ماسٹر مائنڈ کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا پیغام دیا گیا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو چیئرمین پی ٹی آئی کو ابھی کئی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اتحادی جماعتوں نے دوٹوک کہہ دیا ہے کہ اب مذاکرات کا وقت نہیں رہا‘ آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا‘ یہ پی ٹی آئی چیئرمین کی حکمت عملی پر منحصر ہے کہ وہ اعصابی طور پر کتنے مضبوط ثابت ہوتے ہیں‘ اورکب تک اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں