11اپریل 2022ء کو شہباز شریف نے ملک کے 23ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر وہ رخصت ہو چکے ہیں اور انوارالحق کاکڑ آٹھویں نگراں وزیراعظم کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ اس موقع پر بطور وزیراعظم‘ شہباز شریف کے سولہ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ سولہ ماہ کا عرصہ وزارتِ عظمیٰ کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کافی نہیں ہے‘ نہ ہی دوسرے ادوار کے ساتھ اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے‘ تاہم ذیل کی سطور میں ہم ان کی چند اہم کامیابیوں اور مشکلات کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کریں گے۔ سابق وزیراعظم کو معاشی چیلنجز کا سامنا رہا جس کا اظہار انہوں نے الوداعی خطاب میں یوں کیا کہ وزارتِ عظمیٰ کے سولہ ماہ ان کے سیاسی کیریئر کا مشکل ترین عرصہ تھا اور حالات ان کی سوچ سے بھی زیادہ خراب تھے۔ انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ خواہش کے باوجود وہ عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مہنگائی کا چیلنج نہ صرف اپنی جگہ موجود ہے بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ان تمام تر مشکلات اور چیلنجز کے باوجود کئی کارناموں کا کریڈٹ شہباز شریف کو نہ دینا قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔
اتحادی حکومت قائم ہوئی تو شدید معاشی مشکلات اور چیلنجز سے آغاز ہوا‘ دفعتاً لگا کہ اتحادی جماعتوں نے اقتدار سنبھال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان جیسے زیرک سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سمیت دیگر کئی رہنما برسرعام کہنے لگے تھے کہ مختصر مدت کے لیے حکومت سنبھالنے کا فیصلہ درست نہیں تھا حتیٰ کہ حکومت ختم کرنے کے مشورے دیے جانے لگے کیونکہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھنے لگی تھی۔ تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام اور بعدازاں معاشی بحران نے پچھلی حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کو عوام کے ذہنوں سے محو کر دیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی مقبول ہو چکے تھے‘ یہی وجہ تھی کہ صفِ اول کے دانشور بھی اتحادی حکومت کے فیصلوں پر کھل کر تنقید کرنے لگے۔ ان چیلنجز کے باوجود شہباز شریف نے ہمت نہیں ہاری‘ انہوں نے سب سے پہلے ان ممالک کیساتھ تعلقات کو بحال کیا جنہیں پی ٹی آئی پس پشت ڈال چکی تھی۔ رُکے ہوئے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرایا۔ برادر ممالک کے ساتھ اعتماد کو بحال کیا۔ سب سے بڑھ کر عالمی مالیاتی فنڈ سے توسیعی پیکیج کا حصول یقینی بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا کیونکہ پی ٹی آئی حکومت اس معاہدے کی خلاف ورزی کر چکی تھی۔ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا بلاشبہ شہباز شریف کا اہم کارنامہ ہے۔ آئی ایم ایف سربراہ کو اعتماد میں لینا شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی سے ممکن ہو پایا۔ شہباز شریف نے خود بھی اپنے الوداعی خطاب میں ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کا نمایاں طور پر ذکر کیا۔
شہباز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج 13جماعتوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی متعدد بار اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ ماضی کی سخت حریف جماعتوں کے بارے عام خیال یہی تھا کہ یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا لیکن سولہ ماہ تک جس مہارت اور خوش اسلوبی سے معاملات کو نمٹایا گیا‘ یہ شہباز شریف کا ہی خاصا تھا۔ شہباز شریف کے صلح جُو مزاج کی بدولت تیرہ جماعتوں کا اتحاد برقرار رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس اتحاد کو ٹوٹنے سے بچا کر شہباز شریف نے اہم سیاسی چال چلی جسے پی ٹی آئی سمجھنے سے قاصر رہی کیونکہ پی ٹی آئی مطمئن تھی کہ یہ اتحاد زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکے گا۔ شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاستدان بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو مشورے دیتے رہے کہ انہیں مزاحمتی بیانیہ اپنانے کے بجائے خاموشی سے اس دن کا انتظار کرنا چاہیے جب تیرہ جماعتوں کا یہ اتحاد ٹوٹ جائے گا۔ اتحاد نہ ٹوٹنے کا پی ٹی آئی کو نقصان یہ ہوا کہ وہ اپنی خوبیوں پر سیاست کرنے کے بجائے مخالف کی غلطیوں کے انتظار میں رہی‘ یوں کوئی متبادل منصوبہ بندی ترتیب نہ دے سکی۔
ذرا تصور کریں کہ اگر یہ اتحاد برقرار نہ رہتا تو اتحادی حکومت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا؟ معاشی حالات جہاں اب ہیں اس سے بدتر ہو چکے ہوتے اور اس کا ذمہ دار اتحادی جماعتوں کو ٹھہرایا جاتا۔ اتحادی حکومت کے بارے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ سب کو راضی کرنے کے لیے قومی مفادات پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ ماضی کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ اتحادی حکومتوں کے ادوار میں کرپشن کی شرح بڑھ جاتی تھی لیکن شہباز شریف نے قومی مفادات کا تحفظ کیا اور پچھلے سولہ ماہ کے دوران ہمیں کرپشن کا کوئی بڑا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔
شہباز شریف کے سولہ ماہ کے اقتدار کو اس نظر سے دیکھا جانا چاہیے کہ کن حالات میں انہیں حکومت ملی تھی اور جب انہوں نے حکومت چھوڑی تو ملکی حالات کیا ہیں۔ سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہو گا کہ سولہ ماہ کے قلیل عرصہ میں ترقیاتی منصوبے شہباز شریف کی توجہ کا مرکز رہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کا قیام بھی ان کی اہم کامیابی ہے۔ پچھلے 76برسوں میں طویل المدتی منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ شبہاز شریف نے معاشی بحالی کے لیے بطور وزیراعظم جو اقدامات کیے ہیں اس کی خوبی یہ ہے کہ انہیں اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ انتخابات کے نتیجے میں جس پارٹی کی بھی حکومت قائم ہو گی‘ وہ ان منصوبوں کو جاری رکھے گی۔ ماضی میں ایسی مثالیں کم ملتی ہیں جب حکومت کی رخصتی کے ساتھ ہی اس کے جاری کردہ منصوبوں کو لپیٹ نہیں دیا جاتا تھا۔
شہباز شریف کے سولہ ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کو لازمی طور پر ملحوظ رکھا جائے گا کہ کن حالات میں وہ ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اگرچہ عام شہری کی زندگی میں مشکلات ہیں اور ہم خوشحالی سے کوسوں دور ہیں‘ تاہم بحران سے نکل جانا کسی کامیابی سے کم نہیں ہے۔ سمت کا تعین ہمیں عنقریب منزل تک لے جائے گا۔ اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے پر جس عزت سے شہباز شریف رخصت ہوئے اکثر سیاسی لیڈر اس عزت سے محروم رہے۔ شہباز شریف نے ملک کو جس مقام تک پہنچا دیا‘ اس سفر کو جاری رکھنے اور عام آدمی کی زندگی سے احساسِ محرومی ختم کر کے اس کا معیارِ زندگی بلند کرنے سے ہی حقیقی خوشیاں حاصل ہوں گی۔ سیاستدان 76برسوں سے عوام سے جو وعدے کرتے رہے ہیں‘ انہیں پورا کیے بغیر حقیقی خوشیوں کا حصول ممکن نہیں ہو پائے گا۔ اس لیے ترقی کے اس سفر کو بہرصورت جاری رکھنا ہو گا۔ اب شہباز شریف جا چکے ہیں اور ملک میں عام انتخابات کے بعد نیا وزیراعظم منتخب ہونا ہے۔ غیر متنازع اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول انتخابات کا انعقاد نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی ذمہ داری ہے۔ نگران وزیراعظم کی صلاحیتوں کے ہر طرف چرچے ہیں۔ ہرجانب سے ستائشی کلمات کہے جا رہے ہیں‘ تاہم وہ اپنی ذمہ داری سے کیسے عہدہ برا ہوتے ہیں یہ زیادہ اہم ہے۔ ان کی آئندہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی شناخت سے ہی انہیں آئندہ یاد رکھا جائے گا۔