آئین میں منتخب اسمبلی کی مدت پانچ سال ہے‘ پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے پر انتخابات کا انعقاد ہونا ضروری ہے‘ اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہو چکی ہے۔2018 ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی کی آئینی مدت 12اگست کو پوری ہونی تھی مگر تین روز پہلے ہی اسے تحلیل کر دیا گیا۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت بھی قائم ہو گئی مگر عام انتخابات کب ہوں گے‘ یہ معمہ حل ہونا باقی ہے۔ صدرِ مملکت نے عام انتخابات کی تاریخ دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر مشاورت کیلئے بلایا‘ الیکشن کمیشن نے ملاقات کے بجائے جوابی خط پر اکتفا کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد الیکشن کی تاریخ کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ ذیل کی سطور میں ہم الیکشن کے التوا کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
اپریل 2022ء میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو انہوں نے فوری طور پر عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا‘ حریف جماعتوں نے اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا اور مؤقف اپنایا کہ وہ ہر حال میں آئین اور جمہوری اقدار کی پاسداری کریں گی۔ مگر حکومت ختم ہونے کے باوجود جب چیئرمین پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھنے لگی تو انہوں نے جلسوں میں یہ دھمکی دینی شروع کی کہ اگر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ ان کے اراکین قومی اسمبلی سے استعفے دے دیں گے جبکہ دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ جب دھمکی کام نہ آئی اور انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو انہوں نے جنوری 2023ء میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اس موقع پر اتحادی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبوں اور وفاق میں الگ الگ انتخابات کرانے کی صورت میں 20ارب روپے کے اضافی اخراجات ہوں گے‘ ملک کے معاشی حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسمبلی اپنی آئینی مدت پانچ سال پورے ہونے پر تحلیل ہوئی تو اسے بھی جمہوریت کیلئے خوش آئند قرار دیا گیا کہ مسلسل تیسری اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ توقع تھی کہ نگران حکومت قائم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے گا‘ مگر ایسا نہیں ہوا‘ بلکہ چار ماہ پر مشتمل نئی حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ حلقہ بندیوں کا عمل 14دسمبر کو مکمل ہو گا تو کیا حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کو نوے روز درکار ہوں گے؟ اگر ایسی منصوبہ بندی کی گئی ہے تو پھرفروری 2024ء کے وسط سے پہلے الیکشن ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔
نئی حلقہ بندیوں کا جاری عمل الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات میں التوا کا جواز ہے‘ لیکن کیا بات واقعی اتنی سادہ ہے؟ ہماری دانست کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری پی ٹی آئی کا منصوبہ تھا لیکن بوجوہ وہ یہ شروع نہ کر سکی۔ اتحادی حکومت نے یکم مارچ 2023ء کو ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز کیا‘ یہ عمل ایک ماہ جاری رہنا تھا‘ اس لحاظ سے یکم اپریل ڈیجیٹل مردم شماری کی تکمیل کی مدت تھی‘ جب ایک ماہ کا وقت گزر گیا تو ادارۂ شماریات کی طرف سے کہا گیا کہ 97فیصد مردم شماری مکمل ہو چکی ہے مزید 15 دن کا وقت چاہیے‘ یوں 15اپریل تک ڈیجیٹل مردم شماری کی مدت میں توسیع کر دی گئی۔ بعدازاں 20 اپریل‘ 30اپریل اور 15مئی تک بالترتیب مدت میں توسیع کی گئی۔ 16مئی کو ادارۂ شماریات نے ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کا اعلان کیا تو کئی حلقوں کی جانب سے ان نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ بے ضابطگیاں دور کر کے سرکاری نتائج کا اعلان کرنے کے بجائے اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا اور اسمبلی تحلیل ہونے سے محض چار روز قبل مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی۔ نتائج کے سرکاری اعلان میں تین ماہ کی تاخیر کیوں کی گئی؟ صرف ایک ہی وجہ تھی کہ جتنا ممکن ہو سکے عام انتخابات کو مؤخر کیا جائے۔ 12اگست کو اگر اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی تو دو ماہ میں الیکشن ہونے تھے مگر اسمبلی کو تین دن پہلے تحلیل کر دیا گیا‘ الیکشن میں تاخیر کے سوا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ الیکشن میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے اور تاخیر کے پیچھے کون سے محرکات ہیں‘ نیز یہ کہ کیا اس تاخیر سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں سے متعدد ایسی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ وہاں آندھی آئے یا طوفان‘ الیکشن اپنی مقررہ تاریخ سے آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں‘ نومبر کے پہلے منگل کو انتخابات نہ ہونے کی ایک ہی صورت میں تاریخ بڑھائی جا سکتی ہے کہ منگل یکم نومبر کو ہو ایسی صورتحال میں اگلے منگل کو انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ 1845ء سے لے کر آج تک امریکہ کی تاریخ میں صرف 14 فیصد انتخابات کی تاریخ اس لیے آگے بڑھائی گئی کہ نومبر کا پہلا منگل یکم تاریخ کو تھا۔ تاریخ میں توسیع کے حوالے سے بھی ابہام دور کر دیا گیا کہ اگلے منگل کو ہوں گے۔ ہم ابہام کو دور کیوں نہیں کر سکتے؟ یا ہم ابہام کو دور کرنا ہی نہیں چاہتے؟
دوسری مثال ترکیہ کی دی جا سکتی ہے کہ وہاں فروری میں تباہ کن زلزلہ آیا‘ جانی و مالی نقصان اور ریلیف آپریشن کو بنیاد بنا کر صدارتی الیکشن ملتوی کیے جا سکتے تھے‘ لیکن طیب اردوان نے ایسا نہیں کیا ‘حالانکہ اپوزیشن کی ساری جماعتیں ان کے خلاف متحد ہو چکی تھیں‘ اس کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ زلزلہ متاثرین کا ریلیف آپریشن اور الیکشن کی تیاریاں ساتھ ساتھ چلتی رہیں اور مئی میں صدارتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔
ہم نے انہی سطور میں دو وجوہات کی بنا پر سابق اتحادی حکومت کے مؤقف کی تائید کی تھی ایک یہ کہ الیکشن سے پہلے سکیورٹی مسائل پر توجہ دی جائے‘ دوسرے یہ کہ اسمبلی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے‘ جس طرح چیئرمین پی ٹی آئی کی خواہش پر اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے الیکشن کی ہم مخالفت کرتے رہے ہیں اسی طرح الیکشن میں تاخیر پر دوسرے فریق کا اقدام بھی درست نہیں کہلائے گا۔ الیکشن میں تاخیر کے معاملے پر اتحادی جماعتیں بھی ایک پیج پر نہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی الیکشن کو 90روز سے آگے لے جانے کو بحرانی کیفیت سے تعبیر کر رہی ہے‘ مان لیتے ہیں پیپلز پارٹی آئین کی بالادستی کیلئے نوے روز میں انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے تو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وہ خاموش کیوں تھی؟ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے وقت نئی حلقہ بندیوں کے قیام حوالے سے چیزوں کو واضح کیوں نہیں کیا گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عوامی ردعمل سے بچنے کیلئے آئینی تقاضے پورے کرنے کی بات کی جا رہی ہے؟ اب اگر مسلم لیگ (ن) نوے روز سے زائد مدت میں انتخابات کرانے کی وکالت کر رہی ہے تو وہ بھی غلط ہے۔
سیاسی جماعتیں اگر بروقت انتخابات چاہتی ہیں تو پھر کس کی خواہش پر الیکشن میں تاخیر کی جا رہی ہے؟ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن کیوں ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ نوے روز کے اندر انتخابات آئینی تقاضا ہے‘ دوسری بات یہ کہ ملک کے موجودہ حالات کی کوئی جماعت ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ پی ٹی آئی ساڑھے تین سال کا جواب دینے کیلئے تیار نہیں کہ اسے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی‘ اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ مختصر دورانیے کی حکومت میں وہ ڈیمیج کنٹرول کرتے رہے‘ جبکہ نگران حکومت خود کو جواب دہ ہی نہیں سمجھتی۔ اگر یہ سب معاملات کے ذمہ دار نہیں ہیں تو پھر ہمیں اس مقام تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ انہی غیر یقینی کے پانچ برسوں میں ملک تباہی کے گہرے گڑھے میں جا گرا ہے۔ انتخابات ضروری ہیں تاکہ عوامی مینڈیٹ سے کوئی ایسی حکومت آئے جو معاملات کو سنبھال سکے۔