سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف 21 اکتوبر کو ملک واپس آئیں گے۔ نومبر 2019ء میں علاج کی غرض سے لندن جانے والے میاں نواز شریف کی چار برس بعد واپسی ہو رہی ہے۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز کی سربراہی میں لاہور میں ان کے استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔ 2017میں جب میاں نواز شریف کو عہدے سے ہٹایا گیا تب ملک معاشی لحاظ سے قدرے بہتر پوزیشن میں تھا۔ جولائی 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی‘ سیاسی ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی کے ساڑھے تین برس کے دوران ملک معاشی بحران کا شکار ہوا‘ج س سے نجات حاصل کرنا ایک خواب ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی متوقع واپسی لیول پلیئنگ فیلڈ کی جانب اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں دو رائے نہیں کہ میاں صاحب کے ملک سے باہر ہونے سے یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ انتخابات میں سب کیلئے یکساں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں ہے۔ اب ان کی واپسی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے بھی نرم گوشہ پیدا ہو سکتا ہے‘ جس طرح میاں نواز شریف کیلئے ماحول سازگار بنایا گیا اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی انتخابی مہم سے باہر نہ رکھا جائے۔ واپسی کے بعد ممکنہ طور پر میاں نواز شریف کو دو طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایک مقدمات جبکہ دوسرے پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی۔
میاں نواز شریف کو واپسی کے بعد سب سے پہلے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مقدمات میں ریلیف ملنے کے بعد ہی وہ انتخابی مہم شروع کر سکیں گے۔ان کی قانونی ٹیم انہیں باور کرا چکی ہے کہ واپسی پر مقدمات میں قانونی مسائل کے حوالے سے کوئی مشکلات درپیش نہیں ہیں۔ سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وکیل امجد پرویز ملک کے مطابق نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا میاں نوازشریف کی واپسی و کیسزسے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ نگران حکومتوں کی موجودگی میں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اگر قانونی معاملات میں میاں نواز شریف کا زیادہ وقت نہیں لگتا تو وہ جلد انتخابی مہم شروع کریں گے۔ اس ضمن میں بنیادی سوال لیکن یہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے کیا بیانیہ پیش کریں گے؟
میاں نواز شریف 2017ء میں اقتدار سے ہٹائے جانے اور بعد ازاں پیدا ہونے والی معاشی و سیاسی صورتحال کو ممکنہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا بیانیہ بنا سکتے ہیں۔ بھارت کی میزبانی میں ہونے والی جی 20 کانفرنس کے دوران وہ لندن میں ایک سوال کے جواب میں اس امر کا اظہار اِن الفاظ میں کر چکے ہیں کہ ''2017ء کا تسلسل رہتا تو آج پاکستان بھی جی 20 ممالک میں شامل ہوچکا ہوتا یا شامل ہونے کے قریب ہوتا‘‘۔ موجودہ معاشی بحران میں مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کتنا مقبول ہوتا ہے اس حوالے سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ میاں صاحب کے آنے کے بعد وہ سیاسی و انتخابی ماحول دیکھنے کو ملے گا جو چیئرمین پی ٹی آئی ملک میں جلسے جلوسوں کے بعد بھی پیدا نہیں کر سکے۔ میاں نواز شریف ملک کے معاشی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور انہیں حل بھی کر سکتے۔ اس لیے معاشی بحران کا خاتمہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہو گا۔ حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پارٹی میں میاں صاحب کی کیا اہمیت ہے۔ پارٹی رہنما اور کارکنان انہی کو قائد دیکھنا چاہتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو میاں نواز شریف کے نام پر ووٹ ملتا ہے۔ ماضی میں ان کے جلسے اس کے گواہ ہیں کہ جب وہ جلسہ گاہ میں پہنچتے تو کارکنان انہیں سننے کو بے تاب ہوتے۔ میاں صاحب کے قریبی رفقا کہتے ہیں کہ وہ جن علاقوں میں جلسے کیلئے جاتے ہیں وہاں کے مسائل کی مکمل رپورٹ ان کے پاس ہوتی ہے اور وہ اپنی تقریر کے دوران ان مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ قومی سطح کے لیڈر سے عوام یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کو حل کرے۔
سیاسی جماعتوں کو ہر دور میں یہ تحفظات رہے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے‘ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے پر سیاسی جماعتیں انصاف کی بلاامتیاز فراہمی کیلئے پُرامید ہیں۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے امید ظاہر کی ہے کہ نئے چیف جسٹس کے دور میں انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھا جائے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی نئی ذمہ داریوں پر مبارکباد دیتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی صرف آئین‘ قانون اور قواعد کی پاسداری سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے نئے چیف جسٹس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ عوام انصاف کی فراہمی کے منتظر ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس تعیناتی سے پوری دنیا میں پاکستان کی عدلیہ کے وقار اور ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ مریم نواز نے بھی نئے چیف جسٹس کا خیر مقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی تعیناتی کے ساتھ عدالتوں میں انصاف کی واپسی ہو گی۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے بھی چیف جسٹس کو مبارکباد پیش کی۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ماہر اور تجربہ کار قانونی ماہر ہیں اور عدلیہ ان کی مدبرانہ قیادت میں آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف فراہم کرے گی۔ راجہ پرویز اشرف نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت ریاست کے تمام ادارے عام شہریوں کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی پر سیاسی جماعتوں کی خوشی اس بنا پر ہے کہ وہ بااصول انسان ہیں۔ ماضی میں جس طرح دباؤ میں فیصلے ہوتے رہے ہیں اب کی بار ایسا نہیں ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سیاسی جماعتوں کے خلاف فیصلے کریں گے تب بھی کیا ان کی یہ خوشی برقرار رہے گی؟
یہ حسنِ اتفاق ہے یا تاریخ کا انتقام کہ چار سال قبل آرٹیکل209 کے تحت صدرِ مملکت نے جس شخص کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس بھیجا تھا اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کو بھی اس سلسلے میں انکوائریز میں پیش ہونا پڑا تھا‘ اتوار نے روز انہوں نے اسی شخص سے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔ اس دوران سرینا فائز عیسیٰ کی موجودگی بھی بہت سوں کے لیے ہمت اور ثابت قدمی کا ایک پیغام تھا۔ گارڈ آف آنر لینے کے بجائے سائلین کو سہولت فراہمی کی تلقین سمیت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کئی عمدہ روایات کا آغاز کیا ہے۔ چیف جسٹس تعینات ہونے کے بعد پہلے دن بغیر کسی پروٹوکول کے اپنی ذاتی گاڑی پر سپریم کورٹ پہنچے۔ سرکاری ٹی وی پر مقدمہ براہِ راست نشر کرنے کا پائلٹ تجربہ کیا گیا۔ براہِ راست نشریات سے افواہوں اور مفروضوں کا بازار گرم نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ کے تمام 15ججز پر مشتمل فل کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا بطور چیف جسٹس پہلا مقدمہ ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے‘ ورنہ اس سے قبل فل کورٹ کی تشکیل پر ہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ چیف جسٹس سے قوم کو بہت امیدیں ہیں۔ تمام تر چیلنجز کے ساتھ ان کے لیے قوم کی امیدوں پر پورا اترنا کسی امتحان سے کم نہ ہو گا۔