12ربیع الاول میلاد النبی کے موقع پر مستوک اور ہنگومیں دہشت گردی کے واقعات اندوہناک حالات کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ خدا کرے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم ناکام ہوں اور شہری ان کے شر سے محفوظ رہیں‘ مگر یہ انتخابی مہم کیلئے الارمنگ صورتحال ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انتخابات کی ممکنہ تاریخ کا عندیہ ملنے کے باوجود انتخابی ماحول نظر آ تا ہے نہ ہی روایتی گہما گہمی دکھائی دیتی ہے۔ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں میلادالنبی کے پرامن جلوس پر حملے میں جانی نقصان زیادہ ہوا ہے‘ خودکش حملے کے نتیجے میں تاد م تحریر ساٹھ کے قریب افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ شہید ہونے والوں میں ڈی ایس پی مستونگ بھی شامل ہیں۔چند روز قبل جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ پر بھی مستونگ ہی میں حملہ کیا گیا تھا‘ خوش قسمتی سے وہ اس حملے میں محفوظ رہے مگر ان گاڑی مکمل تباہ ہو گئی اور محافظوں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے جو ابھی تک زیر علاج ہیں۔ گاڑی کی حالت اور جائے وقوعہ کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حملہ کس قدر شدید تھا۔ مستونگ میں میلاد النبی کے پرامن جلوس میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کے چند گھنٹوں بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان سے بلوچستان کے علاقے ژوب میں دراندازی کی کوشش کی جسے سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کے ذریعے ناکام بنا دیا تاہم فائرنگ کے تبادلے میں چار اہلکار شہید ہو گئے جبکہ تین دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ عین اس وقت جب مستونگ میں میلادالنبی کے جلوس پر خودکش حملے میں درجنوں افراد کو خون میں نہلا دیا گیا خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ میں دھماکوں کی منصوبہ بندی کی گئی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ہنگو میں پہلا دھماکہ تھانے کے داخلی دروازے پر ہوا ۔ جب سکیورٹی اہلکار پہلے دھماکے کی جائے وقوعہ کی طرف متوجہ ہوئے تو تھانے کے احاطے میں واقع مسجد میں دھماکہ کر دیا گیا۔ یہ جمعہ کا وقت تھا اور عینی شاہدین کے مطابق مسجد میں اُس وقت 60سے 70 افراد موجود تھے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ مسجد کی چھت نمازیوں کے اوپر گر گئی اور متعدد افراد ملبے تلے دب گئے لیکن اسی دوران چونکہ کچھ لوگ تھانے کے گیٹ پر ہونے والے حملے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور فائزنگ سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے اس لئے دھماکے سے پہلے ہی وہ مسجد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگو تھانے کی حدود میں دو دھماکوں میں پانچ افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم جب ملبے تلے افراد کو باہر نکالا جائے گا تو شہید ہونے والوں کی درست تعداد معلوم ہو سکے گی۔ ایک ہی دن دہشت گردی کے متعدد واقعات محض اتفاق نہیں۔ دھماکوں کی نوعیت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دہشت گردوں نے 12 ربیع الاول کے موقع پر دھماکوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ مستونگ اور ہنگو کا علاقہ دوآبہ نسبتاً کم آبادی والے علاقے ہیں‘ یہ سکیورٹی فورسز کی کامیاب حکمت عملی اور انٹیلی جنس تبادلے کا نتیجہ ہے کہ شدت پسندوں کو گنجان آباد شہروں میں گھسنے کا موقع نہیں مل سکا‘ اگر خدانخواستہ دہشت گردوں کا ٹارگٹ بڑے شہر ہوتے تو نقصان ہمارے تصور سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ میلاد النبی کے موقع پر دھماکوں کے بعد سکیورٹی ادارے حرکت میں آئے اور مردان سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے ذریعے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ سکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی دہشت گردوں کے سرپرستوں کیلئے پیغام ہے کہ اپنے مذموم ارادوں سے وہ جو دہشت پھیلانا چاہتے ہیں ان کا ہر منصوبہ ناکام ہو گا اور گھناؤنے کھیل میں ملوث تمام کرداروں کو ڈھونڈ نکالا جائے گا۔
سکیورٹی ادارے طویل عرصہ سے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں‘ بلاشبہ تمام فورسز نے ملک و قوم کی خاطر قربانیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کا ممنون ہونا چاہئے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردوں سے جو خطرات لاحق ہیں کیا ہم نے ان سے نمٹنے کی تیاری کر رکھی ہے؟ بسیار کوشش کے باوجود ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ملتا ۔ دہشت گردی کا ہر نیا واقعہ ہمارے منصوبوں کی قلعی کھول دیتا ہے‘ عبادت گاہوں اور تھانوں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے ہمارے اندازوں کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ذرا تصور کریں جب انتخابی مہم شروع ہو گی‘ ایک دن میں کئی کئی سیاسی اجتماعات ہوں گے تو ان کی حفاظت کیلئے سکیورٹی بندوبست کیسے ہو گا؟ بات ایک دن تک محدود ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ سکیورٹی کا بندوبست کر لیا جائے گا‘ انتخابی مہم چاہے جتنی مختصر کیوں نہ ہو تقریباً دو ماہ کا وقت سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کیلئے دیا جائے گا۔ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اس حوالے سے کوئی بات چیت ہو رہی ہے نہ ہی کوئی لائحہ عمل بنایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے گزشتہ ماہ افغانسان میں داعش سمیت 20 دہشت گرد تنظیموں کی نشاندہی پر مبنی ایک رپورٹ میں ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا تھا۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں طالبان کیلئے خطرہ نہیں ہیں البتہ پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ہیں۔ ہم معیشت اور سیاست کا رونا روتے ہیں لیکن سکیورٹی مسائل جس توجہ کے متقاضی ہیں ہم ان پر توجہ مرکوز نہیں کر سکے۔ یہ صفحات گواہ ہیں کہ طویل عرصہ سے ہم سکیورٹی مسائل اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سکیورٹی حالات جس قدر سنگین نوعیت کے ہیں اس اعتبار سے اربابِ اختیار کی توجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ سکیورٹی خطرات کی سنگینی کا ادراک نہ کرنے کی بڑی وجہ شائد یہ ہے کہ دہشتگردوں کی موجودگی اور ٹھکانے قبائلی اضلاع اور سرحدی علاقوں میں ہیں جو اقتدار کے ایوانوں سے بہت دور ہیں۔ اس سے پہلے کہ دہشت گرد بڑے شہروں کا رُخ کر یں ہمیں دہشت گردوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔
ایسے وقت میں جب سکیورٹی خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں‘ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی گئی ہے ‘ مگر ان حلقہ بندیوں پر خیبرپختونخوا کو تحفظات ہیں کیونکہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق صوبے کی چھ سیٹیں کم ہو گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی کی نشستیں 45 ہیں حالانکہ انتخابات 2018ء میں خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی سے 39 نشستیں تھیں جبکہ 12 نشستیں فاٹا سے تھیں جو کل 51 نشستیں بنتی تھیں‘ اب نئی حلقہ بندیوں میں قبائلی اضلاع سے چھ نشستیں کم کرنے کے بعد خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں رہ گئی ہیں۔ کم آبادی کو نشستیں کم کرنے کا جواز قرار دیا گیا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں پر خیبرپختونخوا کی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ انتخابات سے قبل تنازعات جنم نہ لیں۔ ہماری دانست میں حلقہ بندیوں پر تحفظات سے بھی زیادہ سکیورٹی خطرات ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں‘ کیونکہ جب میلادالنبی کے جلوس دہشت گردوں سے محفوظ نہیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ انتخابی مہم اور سیاسی جلوس بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہوں گے۔