"RS" (space) message & send to 7575

اجتماعی دانش کا فروغ

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ کا مختصر فیصلہ آ چکا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آئین میں فردِ واحد کی اجارہ داری کی گنجائش نہیں ‘ فرد ِواحد کے اختیارات کے خاتمے کے حوالے سے پارلیمان کو جو کام بہت پہلے کر لینا چاہئے اس میں اگرچہ بہت تاخیر کر دی گئی مگر ''دیرآید درست آید‘‘ کے مصداق اب جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ ہو گیا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ اس فیصلے کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ اس کا کریڈٹ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے جنہوں نے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے پیغام دیا کہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ آئین نے پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیا ہے قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے مگر جب سپریم کورٹ کیلئے قواعد و ضوابط بنانے کا مرحلہ آیا تو پارلیمان نے اپنا یہ حق سپریم کورٹ کو دے دیا کہ وہ اپنے لئے خود قواعد و ضوابط بنا لے‘ 1980ء میں سپریم کورٹ نے اپنے لئے جو رولز بنائے ‘اس کے تحت بینچ کی تشکیل اور ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس کے پاس رہا‘ چونکہ پارلیمان نے آئین و قانون سازی کا اختیار سپریم کورٹ کو تفویض کر دیا تھا اس لئے جو قواعد و ضوابط سپریم کورٹ نے اپنے لئے بنائے وہ آئین کہلائے‘ البتہ پارلیمان کے پاس یہ حق موجود تھا کہ وہ ترمیم کر کے سپریم کورٹ سے یہ حق واپس حاصل کر لے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں دراصل یہی کیا گیا ہے‘ مگر تحریک انصاف سمیت بعض حلقوں کو اس ترمیم پر اعتراض تھا اس لئے جب یہ بل منظوری کیلئے صدر مملکت کے پاس دستخط کیلئے بھیجا گیا تو انہوں نے نظر ثانی کیلئے واپس بھیج دیا اور صدر مملکت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔ 10 اپریل 2023ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پاس ہو گیا مگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 13اپریل کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناع جاری کرد یا۔یوں تقریباً پانچ ماہ تک اس ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ یہ ایسا موقع تھا کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بھی چیف جسٹس کے لامحدود اختیارات پر تحفظات کا اظہار کر رہے تھے۔پارلیمنٹ نے ایکٹ منظور کر کے از خود نوٹس کا اختیار فردِ واحد کی بجائے تین رکنی کمیٹی کو دے دیا تھا‘ ہر لحاظ سے یہ اقدام قابلِ تحسین تھا یہی وجہ تھی کہ سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین نے بھی اسے سراہا‘ مگر اس ایکٹ کے خلاف ایک بیانیہ قائم کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں مداخلت کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مقصد کیلئے درخواستیں دائر کر کے سپریم کورٹ سے مذکورہ ایکٹ کالعدم قرار دینے کی التجا کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17ستمبر کو چیف جسٹس کا حلف اٹھایا تو انہوں نے سب سے پہلے اس کیس کو سماعت کیلئے مقرر کیا اور فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا اور عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کے احکامات بھی جاری کئے۔ چیف جسٹس ترجیحی بنیادوں پر اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے مگر وکلا کے دلائل سنے بغیر فیصلہ ممکن نہ تھا سو پانچویں سماعت میں کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا‘ تفصیلی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے جس سے کئی سوالوں کے جواب مل سکیں گے اور ابہام کا خاتمہ ہو سکے گا۔ سپریم کورٹ فیصلے کی تمام تر تفصیلات میڈیا پرآ چکی ہے اس لئے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ‘ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں یہ شق بھی رکھی تھی کہ اس ایکٹ کا اطلاق ماضی کے کیسز پر بھی ہوگا‘ سپریم کورٹ نے اس شق کو غیرآئینی قرار دیا ہے کیونکہ اس شق سے مخصوص افراد کو فائدہ ہوتا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو دہائیوں بعد عدالتی اصلاحات اور چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے کا خیال کیوں آیا؟
جمہوری معاشروں میں عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں‘ مگر ماضی میں بعض چیف جسٹس صاحبان کے دور میں بہت زیادہ ازخود نوٹس لئے گئے جس سے مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت کا تاثر پیدا ہوا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور کو بطور خاص ذکر کیا جا سکتا ہے جب ہر معاملے میں عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹا کر چیف جسٹس سے اپیل کی جاتی تھی‘ عوام کے ذہنوں میں یہ بات جاگزیں ہو چکی تھی کہ ان کے مسائل سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سے حل ہوں گے۔ ہم خیال ججز پر مشتمل مرضی کے بینج بننے کی داستان الگ ہے‘ یہی وجہ تھی کہ فرد واحد کو حاصل اختیارات سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھنے لگے تھے۔ چیف جسٹس کی ازخود نوٹس میں مصروفیت سے زیر التوا مقدمات کا حجم بھی کئی گنا بڑھ گیا۔ اختیارات کی جنگ میں کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس آمنے سامنے دکھائی دیئے۔ اس عرصے میں سیاسی عدم استحکام سر چڑھ کر بول رہا تھا جس کے نتیجے میں معاشی بحران شدت اختیار کر گیا‘ بالعموم سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کو ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ جب بھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا چاہے وہ مارشل لا ء کا دور تھا یا جمہوری‘ اس میں عدلیہ کا کردار ضرور رہا۔ اب سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے ماضی کے ہم خیال بینچوں کے فیصلوں کی قلعی کھول دی ہے۔ صاف کہہ دیا جاتا تھا کہ کسی کی خواہش پر فل کورٹ نہیں نہیں بن سکتا۔ اس موقع پر اتحادی جماعتوں کی طرف سے برملا یہ کہا جانے لگا کہ سپریم کورٹ کے مخصوص ججز ایک سیاسی جماعت کی طرف داری کرتے ہیں اور حتیٰ الامکان اسے سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے سامنے سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کرائے مگر جو عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان خلیج پیدا ہو چکی تھی اسے دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی حالانکہ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت اور انصاف کے تقاضوں میں توازن قائم کرنا ہی اصل کمال ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس صاحبان اس کا ادراک نہ کر سکے کیونکہ کوئی بھی اپنے اختیارات منتقل کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختیارات منتقل کرنے پرآمادگی کا اظہار کر کے یہ عملی طور پر ممکن بنا دیا ہے‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اقدام سے فردِ واحد کی اجارہ داری کا بت پاش پاش ہو گیا ہے ۔یہ اجتماعی دانش کے فروغ میں اہم پیش رفت ضرور ہے مگر منزل ہرگز نہیں۔ انصاف کی آ سان فراہمی کے ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے کیا سیاسی جماعتیں بھی جمہوری اقدار کے فروغ میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں