مسلم لیگ (ن) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کی قیادت کے درمیان عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پہلے چار سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر چکی ہے جن میں ایم کیو ایم‘ جے یو آئی‘ بلوچستان عوامی پارٹی اور (ق) لیگ شامل ہیں‘ اب اسے استحکامِ پاکستان پارٹی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا سیاسی جماعتیں ابھی تک پی ٹی آئی سے خائف ہیں؟ یہ چھ جماعتی اتحاد اگر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو ایسی حکومت کتنی پائیدار ہو گی؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی بڑے سیاسی اتحاد تشکیل دیے گئے جنہوں نے انتخابی میدان میں حصہ لیا اور حکومت سازی میں کردار ادا کیا۔ یہ اتحاد مختلف نظریات اور علاقائی نمائندگی رکھنے والی جماعتوں پر مشتمل تھے‘ جو اپنے مشترکہ مفادات اور مقاصد کے لیے متحد ہوئیں۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا گیا جس میں جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ جمعیت علمائے پاکستان‘ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ مسلم لیگ‘ مسلم لیگ (فنکشنل)‘ ڈیموکریٹک پارٹی اور تحریک استقلال جیسی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ان سیاسی جماعتوں کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس میں یہ جماعتیں کامیاب ٹھہریں۔ 2002ء میں متحدہ مجلسِ عمل کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ جمعیت علمائے اسلام (س)‘ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی گروپ)‘ جماعت اسلامی شامل تھیں۔ اسلامی نظام کا نفاذ اس اتحاد کا نظریہ تھا۔ متحدہ مجلسِ عمل نے الیکشن 2002ء میں قومی اسمبلی کی 59نشستیں حاصل کیں‘ جبکہ خیبرپختونخوا میں 52نشستیں حاصل کر کے صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کے علاوہ بلوچستان اور سندھ میں بھی کچھ وزارتیں حاصل کر لیں۔ ایم ایم اے کی کامیابی کے پیچھے دراصل وہ عوامی غم و غصہ تھا جو پرویز مشرف کے خلاف مسلسل بڑھ رہا تھا۔ 2008ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں 91سیٹوں کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل ہوئی‘ حکومت بنانے کیلئے اسے اتحادیوں کی ضرورت تھی سو مسلم لیگ (ن) نے اس موقع پر اہم کردار ادا کیا اور وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ یوں ایم کیو ایم‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام اور دیگر کئی چھوٹی جماعتوں کے اشتراک سے اتحادی حکومت تشکیل دی گئی‘ تاہم بحرانوں نے سر اٹھا لیا اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے حکومت کو گرنے نہ دیا اور اس پر فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات بھی لگے۔ آصف زرداری ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ وہ اتحادیوں کے ذریعے مسائل کو حل کر لیں گے‘ اُس وقت سیاسی جماعتوں کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ملک کو طویل عرصہ تک مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ جمہوری تسلسل سے سارے معاملات حل ہو جائیں گے۔ منتخب حکومت نے اپنی مدت تو پوری کی مگر لوڈشیڈنگ سمیت کئی مسائل سنگین ہو گئے اور مسلم لیگ (ن) کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے نعرے پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 2020ء میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا‘ جس میں پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں‘ بعدازاں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے معاملے پر جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جنرل سیکرٹری شاہد خاقان عباسی نے پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین کو شوکاز نوٹس جاری کیا تو یہ دونوں جماعتیں پی ڈی ایم سے الگ ہو گئیں لیکن ایک وقفے کے بعد عملی طور پر پھر اس اتحاد کا حصہ بن گئیں اور مارچ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد میں ساری جماعتیں ایک پیج پر جمع تھیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیں کئی اتحاد دکھائی دیتے ہیں جن کا اولین مقصد اقتدار کا حصول تھا‘ اس لیے اتحاد قائم کرنے اور حکومتوں کو گرانے تک تو سیاسی جماعتیں کامیابی ٹھہریں تاہم سیاسی اتحادوں کا عوام کو فائدہ نہیں ہوا کیونکہ اتحادی اور مخلوط حکومت کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ زیادہ اتحادیوں کی وجہ سے حکومت کمزور ہوتی ہے اور عوامی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے منتخب حکومت اتحادیوں کو راضی کرنے میں مصروف رہتی ہے تاکہ حکومت قائم رہے۔ ماضی میں جتنے سیاسی اتحاد قائم ہوئے انہیں کوئی نہ کوئی نام دیا گیا اس بار چھ جماعتوں پر مشتمل تشکیل پانے والے سیاسی اتحاد کو کوئی نام نہیں دیا گیا ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس اتحاد کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کتنی پائیدار ہو گی اور ملک کو موجودہ معاشی بحران سے کیسے نکالے گی؟ جب اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہوتا ہے‘ جب اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفاد سے مقدم رکھتی ہیں تو ان کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لیے اتحادی حکومت کی پائیداری ایک نازک توازن پر منحصر ہوتی ہے۔ اتحادی حکومتوں میں مختلف جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس سے فیصلہ سازی کا عمل سست ہو سکتا ہے اور مسائل کے حل میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ اتحاد ی حکومتوں کی پالیسیاں اکثر بدلتی رہتی ہیں‘ جس سے عوام اور سرمایہ کاروں میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی اتحاد اس بات کی بھی علامت ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے دعوے میں صداقت نہیں۔ سیاسی امور کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ایک قومی حکومت تشکیل دے کر ملک کو بحران سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہو اور مخلوط حکومت کے ذریعے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ اس اتحاد کے پیچھے مفاہمت کی پالیسی ہے تاکہ مقامی قیادت کو ترقی کے وژن میں شامل کیا جائے‘ بنیادی طور پر اس کے دو فائدے ہوں گے ایک یہ کہ مقامی قیادت سے زیادہ وہاں کے مسائل کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ دوسرا یہ کہ صوبائی سطح پر پائے جانے والے احساسِ محرومی کو دور کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ قیادت مقامی لوگوں کے سپر کر دی جائے۔ جب حکومت میں کئی سیاسی جماعتیں ہوں گی تو حکومت کو مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا اور حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ کام کرتی رہے گی۔
مسلم لیگ (ن) کو موجودہ سیاسی سیٹ اَپ میں چند حوالوں سے خصوصیت حاصل ہے‘ اکثر سیاسی جماعتوں کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہونا معمولی بات نہیں‘ شاید اسی بنا پر مسلم لیگ (ن) اپنی شرائط پر اتحاد کر رہی ہے تاکہ اس کے نتیجے میں ایک مضبوط حکومت تشکیل دی جا سکے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی زبوں حالی اور عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینا ہے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ اور اہم وزارتیں مسلم لیگ (ن) کو سونپی گئیں۔ اتحادی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد عوام کو ریلیف دیں گے‘ اس حکومت میں مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا لیکن عوام کو تسلی تھی کہ مشکل کے بعد آسانی ہو گی لیکن سولہ ماہ کی اتحادی حکومت عوام کو بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نہ ہو سکی پھر نیا مؤقف اختیار کیا گیا کہ اتحادی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ اس پس منظرمیں دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) چھ جماعتی اتحاد کے ساتھ ملک کو معاشی بحران سے نکال پائے گی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو گی؟