"RS" (space) message & send to 7575

افغانستان میں دہشت گردی کے نئے خطرات

افغانستان ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گیا ہے جہاں موجود دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پاکستان‘ چین اور امریکہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان عالمی دہشت گرد تنظیموں کا گڑھ بن چکا ہے جہاں موجود 23دہشت گرد تنظیمیں 53ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں پاکستان سر فہرست ہے۔ 23 دہشت گرد تنظیموں میں 17 صرف پاکستان کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان تنظیموں میں ٹی ٹی پی‘ جماعت الاحرار اور بلوچ شدت پسند تنظیمیں سرفہرست ہیں۔ دوسری جانب افغانستان سے القاعدہ یورپ اور امریکہ کو‘ تحریکِ اسلامی ترکمانستان چین کو جبکہ آئی ایم یو ازبکستان کو نشانہ بناتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال بڑی تعداد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ٹی ٹی پی اور افغان حمایت کا مرکزی کردار رہا۔ ایشیا پیسفک فورم کے مطابق 2020ء کے بعد سے ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 2020ء میں 49‘ 2021ء میں 198‘ 2022ء میں 237 حملے کیے۔ پچھلے دو برسوں میں پاکستان میں ہونے والے بیشتر خودکش حملہ آوروں میں ملوث افراد بھی افغانی تھے۔ یعنی ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ پاکستان کے بارہا مطالبے پر بھی افغانستان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی افغان طالبان کے دور میں خطے میں عدم استحکام بڑھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دوحہ معاہدے میں دہشت گرد گروپ توڑنے اور دیگر ممالک کے لیے سلامتی کا خطرہ نہ بننے کے افغان طالبان کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد خطے میں سکیورٹی کی صورتحال غیریقینی ہو گئی ہے۔
افغانستان میں قیامِ امن کے وعدوں کے باوجود دہشت گردی کے خطرات اب بھی ملک میں موجود ہیں۔ یہ خطرات کئی شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں‘ کچھ تو نئے اُبھر رہے ہیں۔ اس نئی صورتحال نے ایک بار پھر امریکہ اور پاکستان کو ایک محاذ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات طویل عرصے سے اتحاد پر مبنی تھے بالخصوص سرد جنگ کے دور میں‘ تاہم افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ان تعلقات میں کشیدگی آنا شروع ہو گئی۔ اس کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں۔ امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ پاکستان طالبان کو خفیہ طور پر فوجی اور مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس خدشے کی بنیاد پاکستانی حکام اور طالبان کے درمیان موجود تاریخی تعلقات تھے۔ امریکہ کا یہ بھی خیال تھا کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کے خلاف قابلِ ذکر کارروائی نہیں کر رہا ہے‘ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے خلاف۔ حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف کئی حملوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان سے انخلا کے دوران اور بعد میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان واضح ہو گیا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مقاصد اور کارروائیوں کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کرتے رہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ملک میں عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کو اس عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرایا اور زور دیا کہ وہ اسے روکنے کے لیے مزید کارروائی کرے۔ ایک طرف امریکہ کی پاکستان سے اُمیدیں تھیں جبکہ دوسری طرف پاکستان خود بھی دہشت گردی سے متاثر ہو رہا تھا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ سکیورٹی بندوبست کے باوجود پاکستانی سرحد کے ساتھ اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے اندر حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ یہ حملے نہ صرف جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور عوام کے اعتماد کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں منشیات کی تجارت اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کے ذریعے مالی امداد حاصل کرتی ہیں۔ یہ مالی امداد انہیں مزید حملے کرنے اور اپنی طاقت بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں حملوں اور دھمکیوں کے ذریعے عوام میں خوف و ہراس پھیلا کر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں چین کو بھی نشانہ بناتی ہیں حالانکہ چین یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے حقیقی مسائل کو ختم کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔ چین کے نزدیک افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے سے کبھی بھی مسائل حل نہ ہوں گے‘ اس لیے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ افغان حکومت کو دہشت گردی کے خلاف وسائل اور تربیت فراہم کرنا‘ دہشت گردی کے نظریاتی محرکات کو دور کرنے کے لیے تعلیم اور معاشی ترقی کے منصوبے شروع کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر چین افغانستان کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ افغانستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں تانبا‘ لوہا‘ سونا اور لیتھیم شامل ہیں۔ چین اس معدنی خام مال کا ایک بڑا خریدار ہے اور وہ یہ مال افغانستان سے بڑی مقدار میں درآمد کرتا ہے۔ چین افغانستان کو صنعتی مصنوعات کی ایک وسیع رینج برآمد کرتا ہے جس میں مشینری‘ کپڑے اور الیکٹرانکس مصنوعات شامل ہیں۔ افغانستان میں ان مصنوعات کی مانگ بڑھ رہی ہے کیونکہ وہ اپنی ملکی معیشت کو ترقی دے رہا ہے۔ چین افغانستان کو کھاد‘ بیج اور زرعی آلات بھی برآمد کرتا ہے۔ یہ امداد افغان کسانوں کو اپنی فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد کرتی ہے۔ چین افغانستان کو تیل اور گیس بھی برآمد کرتا ہے۔ چین افغانستان میں تعمیراتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سڑکیں‘ پاور پلانٹس اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔ یہ منصوبے افغانستان میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور ملک کی اقتصادی ترقی میں مدد کر رہے ہیں۔ چین کا افغانستان میں اور افغانستان کا چین میں سفارت خانہ قائم ہے لیکن چین نے فی الحال افغانستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان تمام تجارتی معاہدات کے باوجود چین چاہتا ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ معاملات کو درست کرے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے ایک کھلا اور جامع سیاسی ڈھانچہ تشکیل دے اور اعتدال پسند اور مستحکم داخلی اور خارجہ پالیسی نافذ کرے۔ چین نے کابل سے پختہ عزم کے ساتھ تمام دہشت گرد فورسز کا مقابلہ کرنے‘ دنیا کے تمام ممالک بالخصوص ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنے اور عالمی برادری کے ساتھ جلد از جلد مل کر چلنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خطے میں نئے سکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر امریکی اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ گیا ہے۔ اسلام آباد پہنچنے والے امریکی وفد کی قیادت پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری الزبتھ ہورسٹ کر رہی ہیں جو کہ 12دسمبر تک پاکستان کا دورہ کریں گی۔ پاک امریکہ وفود کے درمیان ملاقاتوں میں پاکستان افغانستان میں کالعدم تنظیموں اور محفوظ پناہ گاہوں و دہشت گردوں کی فہرستوں کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ ملاقات میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں افغان سرزمین استعمال ہونے پر گفتگو اور ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے کی حکمت عملی پر مشاورت کی جائے گی جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی نے دنیا کو ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ہے۔ اس بار بھی نشانہ افغانستان ہو گا مگر یہ جنگ میدان میں نہیں بلکہ سفارتی محاذ پر لڑی جائے گی۔ افغانستان دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی ترک کرکے اور افغان سر زمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روک کر ایک مستحکم افغانستان تشکیل دینے میں دنیا کی مدد حاصل کر سکتا ہے‘ بصورت دیگر اسے نئی سفارتی جنگ کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں