پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کا پُرامن حل جتنا پاکستان کیلئے اہم ہے اتنا ہی پڑوسی ممالک کیلئے بھی اہم ہونا چاہیے کیونکہ باہمی تنازعات کے گفتگو و شنید کے ذریعے حل سے خطے میں امن و سلامتی اور خوشحالی کو فروغ ملتا ہے۔ پاکستان نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں ہمیشہ پہل کی ہے لیکن دو پڑوسی ممالک کی جانب سے ہمیشہ عدم تعاون کی روش اختیار کی گئی‘ بلکہ ایسا تاثر دیا گیا جیسے خطے میں امن صرف پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک میں سے دو کے ساتھ طویل سرحد لگتی ہے۔ مشرقی سرحد بھارت کے ساتھ لگتی ہے جو کہ 33سو کلو میٹر سے زائد پر محیط ہے جبکہ دوسرے نمبر پر مغربی سرحد ہے جو افغانستان کے ساتھ لگتی ہے اور یہ 26 سو کلومیٹر سے زائد پر محیط ہے۔ پاکستان کے دو صوبے خیبرپختونخوا اور بلوچستان افغانستان سے متصل ہیں۔ ایران کے ساتھ نو سو کلو میٹر سے زائد جبکہ چین کے ساتھ تقریباً 6 سو کلومیٹر کی سرحد ہے۔ پاکستان کو ہر دور میں مشرقی اور مغربی سرحد سے سکیورٹی خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں مشرقی اور مغربی سرحد پر اضافی سکیورٹی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی ادارے مسلسل انہی دو سرحدوں پر مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحد پر باڑ بھی لگائی ہے جس کا 98فیصد کام مکمل ہو چکا ہے مگر باڑ کے باوجود در اندازی کا سلسلہ رُک نہیں سکا ہے اور آئے روز افغانستان سے باڑ اکھاڑنے کے واقعات سامنے آتے ہیں۔
دنیا سرحدی تنازعات کو ختم کرکے معاشی ماڈل کی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ راہداری منصوبوں پر کام ہو رہا ہے مگر ہم اب بھی سرحدی تنازعات میں اُلجھے ہوئے ہیں کیونکہ پڑوسی ممالک عدم تعاون کی روش ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ افغانستان پاکستان کا برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ہے‘ پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن اور معاشی استحکام کیلئے ہر ممکن تعاون کیا ہے مگر پاکستان کو افغان سرزمین سے لاحق شدت پسندی کے خطرات کے ضمن میں تعاون نہیں کیا گیا۔ پاکستان عبوری طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ اسی سوچ کے تحت پاکستان نے مفتی تقی عثمانی صاحب کی قیادت میں جولائی 2022ء میں علما کا ایک وفد افغانستان بھیجا تھا۔ خیال یہ تھا کہ چونکہ طالبان قیادت مذہبی سوچ کی حامل ہے‘ جس میں کچھ افراد پاکستان کے دینی مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں تو علما انہیں قائل کر لیں گے۔ طالبان قیادت نے پاکستانی علما کو سر آنکھوں بٹھایا لیکن جس مقصد کیلئے علما کے وفد کو افغانستان بھیجا گیا تھا وہ پورا نہ ہو سکا بلکہ یہ وفد کالعدم ٹی ٹی پی کی نئی شرائط کے ساتھ واپس آیا۔ 2023ء میں اگرچہ ملک میں دہشت گردی کی شرح میں اضافہ ہوا‘ تاہم یہاں امن کوششوں کو ترک نہیں کیا گیا۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت مسائل کے پُرامن حل کیلئے کوشاں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا وفد کے ہمراہ حالیہ دورۂ افغانستان انہی امن کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ مولانا کے اس دورے سے قبل دوطرفہ امور کو وفود کی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ افغان طالبان کے سپریم کمانڈر مُلا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے قریبی ساتھی مُلا شیریں اخوند کی قیادت میں افغانستان کا اعلیٰ سطحی وفد اسلام آباد میں مذاکرات کر کے واپس جا چکا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بالعموم وزیر خارجہ دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہیں مگر گورنر قندھار مُلا شیریں اخوند کے افغان وزارتِ دفاع‘ اطلاعات اور انٹیلی جنس حکام کے ساتھ اسلام آباد کے دورے سے واضح ہو جاتا ہے کہ افغانستان میں اصل اختیار کن افراد کے پاس ہے۔ مُلا شیریں اب طالبان کے سپریم کمانڈر مُلا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے معتمدِ خاص ہیں‘ اس سے قبل وہ مُلا عمر کے بہت قریبی تھے۔ امریکہ کے ساتھ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے اراکین میں بھی مُلا شیریں شامل تھے۔ یہ رہبری شوریٰ یعنی افغان لیڈر شپ کونسل کے رکن بھی ہیں۔ افغانستان کے تمام بڑے اور اہم فیصلے یہی شوریٰ کرتی ہے۔ ان کا اصل نام حاجی مُلا عبداللہ حنفی ہے جبکہ لوگ انہیں مُلا شیریں کے نام سے جانتے ہیں۔
کابل پہنچنے کے بعد مولانا فضل الرحمن کی افغانستان کے نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر سے ملاقات ہوئی جس میں افغان نائب وزیراعظم نے کہا کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے‘ تاہم ساتھ ہی افغان شہریوں کی واپسی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ مولوی عبدالکبیر افغانستان میں مذاکرات کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جب 2001ء میں امریکی افواج افغان سرزمین پر اُترنا شروع ہوئیں تو اس وقت مولوی عبدالکبیر ننگر ہار کے گورنر تھے‘ بھاگنے کے بجائے وہ گورنر ہاؤس میں موجود رہے اور مذاکرات کرکے اپنے اور دیگر چند خاندانوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ٹھہرے۔ ان شخصیات کا تعارف اس لیے ضروری ہے کیونکہ افغانستان کا سسٹم معاملات کو روایتی اور حکومتی طرز پر حل کرنے کے برعکس شخصیات کا مرہونِ منت ہے‘ سو مولانا فضل الرحمن کی قندھار میں طالبان کے سپریم کمانڈر مُلاہیبت اللہ سے ملاقات اہمیت رکھتی ہے کہ وہاں کیا معاملات طے پاتے ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں چونکہ ایک ماہ کا وقت رہ گیا ہے‘ پُرامن انتخابات کیلئے سکیورٹی مسائل پر قابو پانا ہمارے لیے بہت ضروری ہے‘ اس لیے مولانا کا دورۂ افغانستان نہایت اہم ہے۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے پاکستان اور افغان قیادت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے ہیں‘ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ بااثر شخصیات کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دیرینہ مسائل کے دوطرفہ حل کیلئے افغان حکومت کے خصوصی دعوت نامے پر مولانا کو مدعو کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو سرکاری عہدہ نہ ہونے کے باوجود خارجہ امور میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ بنیادی سوال مگر یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن طالبان قیادت کو قائل کرنے میں کس حد تک کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ افغان طالبان قیادت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پاکستان کا اہم مطالبہ ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ جو مسلح گروہ طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف دو دہائیوں تک لڑتے رہے ہیں‘ ان کے خلاف کارروائی افغان طالبان کیلئے کتنی آسان ہو گی؟
مولانا فضل الرحمن کو افغانستان اور مسلم دنیا میں یکساں طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مولانا مذہبی اور سیاسی شناخت رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی اسرار و رموز سے بھی واقف ہیں اور افغانستان کی مذہبی قیادت کے سامنے اپنے مدعا کو بہتر انداز سے بیان کر سکتے ہیں۔ مولانا کو بہترین مذاکرات کار کہا جاتا ہے‘ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو مولانا کو دیگر شخصیات سے ممتاز بناتی ہیں‘ اس لیے قوی امید ہے کہ مولانا افغان قیادت کے ساتھ دیرینہ مسائل کا پُرامن حل نکال کر کامیاب دورے کے ساتھ واپس آئیں گے‘ لیکن حتمی طور پر نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کیونکہ طالبان افغان شہریوں کی پاکستان سے بے دخلی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے اور مرحلہ وار منتقلی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ پاکستان نے داخلی سلامتی کے پیش نظر طالبان قیادت کے مطالبے پر غور نہیں کیا‘ حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن بھی حکومت سے افغان شہریوں کی منتقلی سے نرم رویہ اپنانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ طالبان قیادت افغان شہریوں کی پاکستان سے بے دخلی سے متعلق یقینا مولانا فضل الرحمن کے مؤقف سے آگاہ ہو گی اور مولانا کے مؤقف کو سراہا بھی جائے گا لیکن اس وقت مولانا کی پہچان پاکستان کے نمائندہ کی ہے۔ ان مشکلات کے باوجود اگر مولانا فضل الرحمن سیاسی بصیرت کی بنیاد پر افغان قیادت کو قائل کرکے دو طرفہ مسائل کا پُرامن حل نکال لیتے ہیں تو یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔