عام انتخابات کے انعقاد کا دن قریب آنے کی وجہ سے اب یہ سوال موضوعِ بحث نہیں رہا کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں‘ معاشی بحران کا خاتمہ نیا موضوع بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد معاشی بحران سے کیسے نمٹیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں معاشی بحران سے نجات کے لیے اپنا معاشی پروگرام پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے منشور میں معاشی مسائل کا حل پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لیے پیسہ چاہیے‘ وہ کہاں سے آئے گا‘ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ پچھلی حکومتیں قومی اداروں کی نجکاری کرکے انہیں پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے لیے اقدامات کر چکی ہیں‘ پھر ایک کروڑ نوکریاں کن شعبوں میں دی جائیں گی؟ سیاسی جماعتوں کے دعوے اپنی جگہ مگر کیا کسی بھی جماعت کے پاس معاشی بحران سے نمٹنے کا شارٹ ٹرم پروگرام موجود ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے‘ اسی لیے مخلوط حکومت کی کوشش کی جائے گی تاکہ اقتدار میں شراکت دار جماعتوں کو ایک دوسرے پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
سیاسی جماعتوں کو بخوبی ادراک ہے کہ معاشی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا ملک کو اس معاشی بحران سے باہر نہیں نکال سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرضوں کا بوجھ معیشت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023ء کے اختتام پر حکومت کا مجموعی قرض 60839ارب روپے تھا۔ یہ رقم گزشتہ مالی سال یعنی 2022ء کے اختتام پر 52879ارب روپے تھی‘ جس کا مطلب ہے کہ ایک سال میں اس میں 15فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ قرض ملکی جی ڈی پی کا 90فیصد بنتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر سال ملکی آمدن کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2023ء میں 20ارب 81کروڑ ڈالر قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوئے۔ محض ایک سال میں تقریباً 21ارب ڈالر قرض اور سود کی مد میں ادا کیے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا حصول اتنا مشکل تھا کہ حکومت اس کی ہر کڑی شرط پر سمجھوتہ کرکے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے پر مجبور ہوئی۔ ہر حکومت کی خواہش رہی ہے کہ وہ قرضوں کا بوجھ کم کرے مگر اس مقصد کے لیے ڈالر چاہئیں۔ ڈالرز کے لیے برآمدات بڑھانا ہوں گی اور برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتوں کا پہیہ چلنا ضروری ہے۔
صنعتیں ملکی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ وہ روزگار پیدا کرتی ہیں‘ معاشی ترقی کو فروغ دیتی ہیں‘ برآمدات میں اضافہ کرتی ہیں‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور خود انحصاری کو فروغ دیتی ہیں‘ حکومتی آمدن میں اضافہ کرتی ہیں اور معاشرتی ترقی کو فروغ دیتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سرمائے کے بغیر صنعتیں کیسے چلیں گی؟ بیرونی سرمایہ کاری صنعتوں کو چلانے کے لیے ایک اہم عنصر ہے۔ یہ فنڈنگ‘ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت‘ بین الاقوامی مارکیٹوں تک رسائی اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے صنعتوں کی ترقی میں مدد کرتی ہے‘ تاہم بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی سازگار ماحول اور امن درکار ہوتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔ جب کسی علاقے میں امن ہو تو خوف کا سایہ ہٹ جاتا ہے اور لوگوں کو اپنا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں لوگ اپنا کاروبار بڑھاتے اور نئے منصوبے لگاتے ہیں۔ سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری میں اضافے کا سوچتے ہیں‘ لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں دہشت گردی کا عفریت موجود ہو‘ کون سرمایہ کاری کرنا چاہے گا؟ سرمایہ کار ایسی جگہوں سے دور بھاگتے ہیں۔ امن صرف ایک ملک کا مسئلہ نہیں‘ یہ پورے خطے کا چیلنج ہے۔ جب ایک ملک میں امن و امان ہوتا ہے تو پڑوسی ممالک بھی اس امن سے مستفید ہوتے ہیں۔ وہ مل کر تجارت کر سکتے ہیں‘ سیاحت کو فروغ دے سکتے ہیں‘ انفراسٹرکچر کے منصوبے بنانے میں تعاون کر سکتے ہیں۔ خطے کا امن ہر ملک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وہ اپنا پیسہ لگا کر پورے علاقے میں ترقی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
امن کے قیام کے لیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک مضبوط اور پُرسکون خطے کے لیے ضروری ہے کہ ہمسایوں کے درمیان اعتماد‘ تعاون اور باہمی احترام کا ماحول ہو۔ جب یہ بنیادی اجزا موجود ہوتے ہیں تو پھر دہشت گردوں کے لیے پنپنا مشکل ہو جاتا ہے اور خطے کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو پاکستان کے چار پڑوسیوں میں سے تین کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اگرچہ باہمی احترام کی بنیاد پر بھارت سے تعلقات استوارکرنے کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے لیکن بھارت کب باہمی احترام اور برابری کی سطح پر تعلقات چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عام انتخابات کے بعد بھی پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ دوسری طرف متعدد یقین دہانیوں کے باوجود عام انتخابات میں سکیورٹی خدشات برقرار ہیں‘ ملک بھر میں قائم کیے جانے والے کُل 90675پولنگ سٹیشنز میں سے 46065یعنی تقریباً 50فیصد سے زیادہ کو حساس قرار دیا گیا ہے جن میں سے 18437 انتہائی حساس ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی بحران کا خاتمہ دیگر کئی اہم مسائل سے منسلک ہے جب تک متعلقہ مسائل ختم نہیں ہو جاتے‘ معاشی بحران کا خاتمہ آسان نہیں ہو گا۔ لہٰذا عام انتخابات کے بعد جو سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی وہ نظام چلانے کے لیے مزید قرضے حاصل کرنے پر مجبور ہو گی جس کے نتیجے میں قرض دہندہ ممالک اور اداروں کی جانب سے نئی شرائط رکھی جائیں گی اور نتیجتاً عوام کی مشکلات دو چند ہو جائیں گی۔ ایسی صورتحال میں اگر سیاسی کشیدگی بھی جاری رہی تو بحران شدت اختیار کر جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی جیل میں ہونے کے باوجود مزاحمتی رویہ ترک کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی قیادت نے اتوار کو اپنے کارکنوں کو انتخابی ریلیوں کی کال دی تھی۔ پابندِ سلاسل ہونے کے باوجود بانی پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کو متحرک اور جوڑے رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں کیونکہ سوشل میڈیا پر انتخابی مہم میں اب بھی پی ٹی آئی چھائی دکھائی دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت بطور سیاسی جماعت مشکل حالات کا سامنا ضرور ہے مگر وقت آنے پر پی ٹی آئی قیادت کی ساری غلطیاں معاف بھی ہو سکتی ہیں جیسے ماضی میں دوسرے سیاستدانوں کے لیے گنجائش نکلتی رہی ہے ویسے ہی مستقبل میں بانی پی ٹی آئی کے لیے بھی نکل سکتی ہے بشرطیکہ وہ نومئی جیسی غلطی نہ دہرائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے اس خواہش کا اظہار یوں کیا ہے کہ ''ہم مقتدرہ سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں‘ ملک کی ایک بڑی جماعت اور مقتدرہ میں خلیج بدقسمتی ہے اور یہ سازش بھی ہو سکتی ہے‘‘۔ ملک اس وقت مشکل دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک و قوم شخصی اَنا کی تسکین یا کسی نئے تجربے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایک پارٹی زیر عتاب ضرور ہے مگر جب عام انتخابات کے بعد کوئی جماعت اقتدار سنبھالے گی اور مختصر مدت میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی تو اسے عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس لیے اگر وسیع تر قومی مفاد اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے گنجائش نکالنے سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس سلسلے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔