خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کو جس حالت میں صوبہ ملا تھا اس سے کہیں بہتر حالت میں چھوڑ کر جا رہی ہے۔ صوبے کی نگران حکومت نے خالی خزانے کے باوجود متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں جنہیں جاری رکھنے سے ان کا فائدہ صوبے کے عوام اور آنے والی حکومت کو ہو گا۔ نگران حکومت بالعموم محتاط اور بڑے فیصلے لینے کے بجائے روزمرہ کے امور کو نمٹانے تک محدود رہتی ہے مگر نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی ٹیم میں شامل لوگ الگ سوچ کے مالک ہیں جنہوں نے صنعت و حرفت‘ فنی تعلیم اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کیلئے خصوصی اقدامات کیے ہیں جو درحقیقت منتخب حکومتوں کی ذمہ داری تھی۔ نگران حکومت کو جب صوبہ ملا تو ملازمین کو تنخواہیں تک دینے کیلئے رقم نہیں تھی‘ مگر نگران حکومت کی مؤثر حکمت عملی سے نہ صرف تنخواہوں کا مسئلہ حل ہو گیا ہے بلکہ نگران صوبائی حکومت اربوں روپے خزانے میں چھوڑ کر جا رہی ہے۔ وزارتِ صنعت و حرفت سمیت کئی وزارتوں کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جا سکتاہے۔ غازی اکنامک زون کے کمرشل بنیادوں پر آغاز سے صوبے میں ماربل‘ فارما سیوٹیکل‘ پرنٹنگ اینڈ پیکیجنگ‘ فوڈ اور مشروبات جیسی صنعتیں مضبوط ہوں گی۔ اسی طرح بنوں اکنامک زون کے کمرشل بنیادوں پر آغاز سے وہاں سینکڑوں چھوٹی صنعتیں لگائی جا سکیں گی جن سے ہزاروں لوگوں کو روزگار میسر آئے گا۔ دور افتادہ علاقہ ہونے کے باعث چترال پر ماضی کی حکومتوں کی توجہ کم ہی جاتی تھی۔ نگران حکومت نے 40 ایکڑ پر محیط چترال اکنامک زون کا افتتاح کیا ہے جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کی بنا پر مستقبل میں سی پیک کا حصہ ہو گا۔ بونیر میں ماربل سٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کی اراضی کیلئے 837 ملین روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ اس میں تقریباً 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے جہاں ماربل کے 300 پروسیسنگ یونٹس لگنے سے 40 ہزار سے زائد افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔
قبائلی اضلاع کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انضمام کے بعد وفاق کی سرپرستی میں صوبے نے وہاں ترقیاتی کام کرنا تھے‘ تاہم وفاق اور صوبے میں مخاصمت کی وجہ سے مطلوب فنڈز کا اجرا نہ ہو سکا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے‘ دوسرا رخ یہ ہے کہ 2018ء سے لے کر 2022ء تک تو وفاق اور خیبر پختونخوا میں ایک ہی جماعت کی حکومت تھی۔ اُس وقت قبائلی اضلاع کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی وفاق سے فنڈز نہ ملنے پر جو واویلا کرتی رہی ہے اس میں پوری صداقت نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی اضلاع کو صوبے میں ضم ہوئے پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر وہاں کے عوام آج بھی بنیادی حقوق نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت وفاق پر ذمہ داری ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دیتی رہی ہے لیکن نگران حکومت نے وفاق کے تعاون سے عملی اقدامات کرتے ہوئے قبائلی اضلاع کے عوام کے شکوے دور کرنے کی کوشش کی۔ ضم شدہ اضلاع میں صنعتی زونز کے قیام کیلئے فزیبلٹی سٹڈی مکمل ہو چکی ہے۔ وانا اور کُرم میں دو زونز کے قیام کا فیصلہ ہوا ہے ہر زون میں تقریباً 15ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے‘ جس کے ذریعے روزگار کے 25 ہزار بالواسطہ اور 80 ہزار بلا واسطہ مواقع میسر آئیں گے۔ اس کے علاوہ کرک سالٹ اینڈ جپسم سٹی کا قیام‘ جلوزئی اکنامک زون‘ حطار سپیشل اکنامک زون میں گرڈ سٹیشن‘ مہمند اکنامک زون کی بحالی‘ ڈیرہ اسماعیل خان اکنامک زون کی بحالی‘ نوشہرہ اکنامک زون اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زون رسالپور میں نئی صنعتوں کا قیام‘ خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کیلئے ڈیجیٹل ایپلی کیشن کی لانچنگ کے ساتھ ساتھ درجنوں منصوبے ایسے ہیں جو نگران حکومت کی مختصر مدت میں شروع کیے گئے ہیں۔ جب نگران صوبائی حکومت اس مختصر دورانیے میں خیبر پختونخوا مین بے شمار صنعتی منصوبے شروع کر سکتی ہے تو پانچ سال کیلئے منتخب ہو کر آنے والی حکومت یہ کیوں نہیں کر سکتی؟
خیبرپختونخوا کی آئندہ حکومت کیلئے نگران حکومت کے شروع کردہ منصوبوں کو آگے بڑھانا ایک اہم چیلنج ہو گا۔ اس راہ میں کئی رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ نگران صوبائی حکومت کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومتی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں جبکہ آمدنی کے ذرائع محدود ہیں۔ ان صنعتی منصوبوں کی کامیابی کیلئے مؤثر انتظامی صلاحیت ضروری ہے۔ اگلی حکومت کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کے پاس ان منصوبوں کو مؤثر انداز میں چلانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ان منصوبوں کو جاری رکھنے کیلئے نامزد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی کا رویہ نہایت اہم ہو گا۔ اگر نامزد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اسی روش پر چلتے ہیں جس کا انہوں نے چند دن پہلے اظہار کیا تھا تو صوبہ اور وفاق دو انتہاؤں پر کھڑے ہوں گے اور اس سیاسی کشیدگی ٍکی وجہ سے نقصان عوام اٹھائیں گے۔ اسی طرح دہشت گردی کے معاملے میں بھی وفاق اور صوبے کی ترجیحات میں واضح فرق ہے۔ اس سے قبل جب پی ٹی آئی کی وفاق اور خیبر پختونخوا میں حکومت تھی اور افغانستان میں طویل خانہ جنگی کا اختتام ہوا تو بانی پی ٹی آئی کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے‘ انہیں قبول کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد قائم ہونے والی اتحادی حکومت کی پالیسی یکسر مختلف تھی۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف دو ٹوک اور سخت پالیسی اپنائی گئی۔ اب جبکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی دوبارہ حکومت قائم ہونے جا رہی ہے تو دہشت گردی کے خلاف صوبائی حکومت کی پالیسی واضح کرنا ہو گی۔
خیبرپختونخوا برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے لیکن کیا صوبائی حکومت اس جنگ میں اکیلے کامیاب ہو سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی مدد کے بغیر یہ لڑائی لڑنا انتہائی مشکل ہے۔ وفاق کا تعاون اس لڑائی میں کئی وجوہات کی بنا پر کافی اہم ہے۔ سب سے پہلے انتظامی صلاحیت کا فقدان ایک سنگین رکاوٹ ہے۔ دہشتگردوں سے مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط اور مؤثر محکمہ پولیس‘ خفیہ ایجنسیاں اور دیگر ادارے ناگزیر ہیں۔ اگرچہ صوبائی حکومت نے ان شعبوں میں بہتری کی کوششیں کی ہیں لیکن وفاقی سطح کے وسیع وسائل اور تربیت یافتہ اہلکاروں کی مدد سے ان کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر بڑھایا جا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ طویل افغان سرحد کے پہاڑی و دشوار گزار راستے دہشت گردوں کی نقل و حمل کو آسان بنا دیتے ہیں۔ یہاں وفاق کے پاس موجود جدید ٹیکنالوجی اور اضافی سکیورٹی فورسز کی امداد سرحدی کنٹرول کو مضبوط بنا سکتی ہے جس سے دہشتگردوں کے داخلے اور فرار میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ خفیہ معلومات کا بروقت اور درست تبادلہ بھی اس لڑائی کا اہم ستون ہے۔ وفاقی خفیہ اداروں کا وسیع تجربہ اور بین الاقوامی رابطے اس شعبے میں بے پناہ مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ دہشتگردوں کی نقل و حمل اور خفیہ منصوبوں سے متعلق معلومات فوری طور پر صوبائی حکومت تک پہنچ جائیں تو اس سے دہشتگردی کی کارروائیوں کو بروقت ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی‘ خفیہ آپریشنز اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بڑے مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت مالی امداد فراہم کرکے اس بوجھ کو کم کر سکتی ہے جس سے صوبائی حکومت دیگر ترقیاتی کاموں پر توجہ دے سکے گی۔ اگر وفاقی حکومت کی مدد نہ ہو تو اس کے نقصانات دور رَس اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس تناظر میں آنیوالے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے سامنے دو راستے موجود ہوں گے۔ پہلا راستہ نگران حکومت کی تقلید کا ہے جس نے وفاق سے گلہ شکوہ کرنے کے بجائے باہمی تعاون سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی۔ دوسرا راستہ مخاصمت کا ہے جس سے سیاسی کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اس سے نقصان عوام کا ہو گا۔ نامزد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کون سا راستہ اپنائیں گے‘ یہ اہم ہو گا۔