شہباز شریف صاحب نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں اپوزیشن کو میثاقِ معیشت اور مفاہمت کی دعوت دی ہے۔ 2018ء میں جب وہ اپوزیشن لیڈر بنے تھے‘ انہوں نے تب بھی میثاقِ معیشت کی دعوت دی تھی لیکن اُس وقت پی ٹی آئی کی حکومت نے اس تجویزکو قابلِ توجہ نہ سمجھا۔ آج پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے اور اس کی قیادت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی حالانکہ سبھی سیاسی جماعتیں جانتی ہیں کہ ملک معاشی لحاظ سے جس پستی میں پہنچ چکا ہے‘ وہاں سے باہر نکالنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں۔ یہ واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کو منقسم مینڈیٹ ملا ہے۔ کوئی بھی جماعت اپنے مینڈیٹ کے بل پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی‘ حکومت بنانے کیلئے کسی بڑی جماعت کے ساتھ اتحاد قائم کرنا ہی تھا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اتحاد قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی بازگشت تھی۔ اگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی حکومت بنا لیتیں اور مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں ہوتی تو کیا پھر یہ اتحاد درست کہلاتا؟ بانی پی ٹی آئی کے انکار کے بعد ہی دونوں بڑی جماعتیں قریب آئیں۔ اب جبکہ حکومت سازی کے اہم مراحل مکمل ہو چکے ہیں تو شہباز شریف کی پیشکش کو قبول کرنا دانشمندی ہے ورنہ جس طرح 2018ء میں میثاقِ معیشت کی پیشکش کو ٹھکرا کر کچھ حاصل وصول نہیں ہوا‘ اب بھی مخاصمانہ رویے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
یہ حقیقت ہے کہ مختلف نظریات اور مفادات کے حامل لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور مل کر چلنا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے اور ملکی ترقی و خوشحالی کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ''مصالحتی سیاست‘‘ ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ وہ سیاسی رویہ ہے جو اتفاقِ رائے کو فروغ دیتا ہے‘ اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور باہمی مشاورت سے مسائل کا حل نکالنے پر زور دیتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اور رہنما بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو قومی یکجہتی مضبوط ہوتی ہے۔ اس سے انتشار کم ہوتا ہے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے جو ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔ یہ مضبوط یکجہتی جب معاشرے میں پائی جاتی ہے تو فیصلہ سازی کا عمل بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ مختلف نظریات پر غور و فکر سے جامع اور حقیقت پر مبنی فیصلے سامنے آتے ہیں‘ غلط فیصلوں کا خدشہ کم ہوتا ہے‘ حکومتی پالیسیاں عوام کے مفاد میں بنائی جاتی ہیں اور مصالحتی رویہ معاشرتی ترقی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں بنیادی مسائل جیسے تعلیم‘ صحت اور معیشت پر مل کر منصوبہ بندی کرتی ہیں تو ان کا حل تیز اور مؤثر طریقے سے ممکن ہوتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ترقی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور عوام کی زندگیوں میں خوشحالی آ جاتی ہے۔ یہ عمل جہاں ترقی کا باعث بنتا ہے‘ وہیں عوامی اعتماد بھی فروغ پاتا ہے۔ جب لوگوں کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے اختلافات کے باوجود ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں تو حکومتی اداروں اور سیاسی نظام پر ان کا اعتماد بڑھتا ہے۔ مصالحتی سیاست کا مطلب ہر بات پر متفق ہونا نہیں‘ بلکہ یہ اختلافات کو تلخی اور تشدد کے بغیر حل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ملکی مفاد کو اولین ترجیح دے کر اس کے حصول کیلئے مل کر کام کرنے کا نام ہے۔ پاکستان جیسے متنوع ملک میں مصالحت پسندانہ رویہ ہی ایک مضبوط‘ خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی تعمیر کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔سیاسی میدان میں اگر تلخ کلامی‘ تصادم اور غیرمصالحتی رویہ برقرار رہے تو اسکے ملک اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ملکی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ معاشرے میں انتشار اور بدامنی کا باعث بھی بنتا ہے۔ غیرمصالحتی رویے کا یہ سلسلہ اگر جاری رہے تو اسکے نتیجے میں ملک داخلی و بیرونی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے اور عوام کی ترقی و خوشحالی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ اسلئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ملکی ترقی کیلئے کام کریں۔ بات چیت‘ برداشت اور اتفاقِ رائے کے ذریعے ہی ہم ایک مضبوط‘ خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
شہباز شریف نے دوسری بار مصالحتی سیاست کا پیغام دیا ہے۔ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام کو اب ختم ہونا چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام نے ہمارے ہر شعبے کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ شہباز شریف کی صلح جو طبیعت کاہر کوئی معترف ہے۔ پڑوسی ممالک اور مسلم دنیا میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وزیراعظم منتخب ہونے پر ترکیہ‘ چین اور ایران کی جانب سے مبارکباد کا پیغام موصول ہونا پاکستان کے ان برادر ممالک کے ساتھ مضبوط اور گہرے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ان تینوں ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے جو خطے میں امن و استحکام کیلئے خوش آئند ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اور مذکورہ تینوں ممالک کے درمیان تاریخی‘ ثقافتی اور مذہبی روابط پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے تعلقات اگرچہ ہر دور میں مثالی رہے ہیں مگر یہ تعلقات شہباز شریف کے دور میں مزید پختہ ہوئے جس کے معترف چینی حکام بھی ہیں۔ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور قریبی اتحادی ہے۔ اقتصادی تعاون کے علاوہ دونوں ممالک دفاعی اور سلامتی کے شعبوں میں بھی تعاون کرتے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ ان تعلقات کی ایک اہم مثال ہے‘ جس کا مقصد خطے میں رابطوں اور تجارت کو فروغ دینا ہے۔ گوادر بندرگاہ کی تکمیل بہت اہم ہے جس میں چین کا کلیدی کردار ہے۔ اسی طرح پاکستان اور ترکیہ کے درمیان قریبی تاریخی اور ثقافتی روابط ہیں۔ دونوں ممالک اسلامی تعاون تنظیم کے بانی رکن ہیں اور خطے میں امن و استحکام کیلئے مل کر کام کرتے ہیں۔ ترکیہ پاکستان کی معاشی ترقی میں امداد فراہم کرنے والا ایک اہم ملک ہے اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون کرتے ہیں۔ شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ترکیہ کے تعاون سے توانائی سمیت کئی اہم منصوبے شروع کیے گئے تھے۔ پاکستان اور ایران کے مابین بھی تاریخی‘ مذہبی اور ثقافتی روابط ہیں۔ دونوں ممالک خطے میں امن و استحکام کیلئے تعاون کرتے ہیں اور مشترکہ مفادات کیلئے مل کر کام کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدی تجارت ایک اہم عنصر ہے اور دونوں ممالک اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ترکیہ‘ چین اور ایران کے ساتھ دو طرفہ تعاون کو آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار پاکستان کے ان برادر ممالک کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کا مظہر ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف خطے میں امن و استحکام کیلئے ضروری ہیں بلکہ ان سے پورے خطے کواقتصادی اور تجارتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ آنیوالے وقت میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دے گا اور خطے میں امن و ترقی کے مشترکہ مقصد کیلئے مل کر کام کرتا رہے گا۔پاکستان اور عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی پائیداری میں ایک اہم کردار شریف خاندان کا رہا ہے۔ شریف خاندان عربوں سے اپنے ذاتی تعلقات کیلئے بھی جانا جاتا ہے۔ 2022ء میں جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنے پہلے غیرملکی دورے کیلئے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری اور معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے سیاسی استحکام چاہیے جو اسی صورت ممکن ہے جب شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کی پیشکش کو قبول کیا جائے گا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں غیرمفاہمانہ رویے پر قائم رہیں تو صدارتی انتخاب اور سینیٹ کے انتخابات مزید تلخ ہو جائیں گے۔