وطنِ عزیز سیاسی عدم استحکام کے طویل دور سے گزرا ہے جس کی وجہ سے ترقی کی رفتار متاثر ہوئی ہے‘ اس کے باوجود یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملک میں جمہوری نظام برقرار رہا اور آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کے قیام کو اس بات کا مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان جمہوری روایات کو مضبوط بنانے کی طرف گامزن ہے۔ اب وقت ہے کہ آگے بڑھ کر اس بات پر توجہ دی جائے کہ کیسے ایک فعال اور مستحکم نظامِ حکومت ملک کی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ انسانی معاشروں کی ترقی کا انحصار ایک منظم اور فعال نظامِ حکومت پر ہے۔ ایک ایسا نظام جو آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کرے۔ ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے اسے سہولت فراہم کرے‘ تاہم پاکستان میں پچھلے کچھ برسوں سے نظام تو جیسے تیسے چل رہا ہے لیکن بدقسمتی سے عوام آگے نہیں بڑھ سکے۔ دنیا اسے ریورس سٹیٹ سسٹم کا نام دیتی ہے جہاں ترقی کا سفر رُک جاتا ہے بلکہ بعض اوقات زوال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نظام جو ترقی کے بجائے تنزلی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو تبدیلی سے گریز کرتا ہے۔ نئی راہوں اور وسائل کو اپنانے میں پس و پیش کرتا ہے اور موجودہ ڈھانچے کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ ایسا نظام نہ صرف ٹیکنالوجی اور علوم سے استفادہ کرنے میں کوتاہی کرتا ہے بلکہ عوام کی ترقی کیلئے ضروری اصلاحات بھی نہیں لا سکتا۔ اس کے نتیجے میں معاشی جمود پیدا ہو جاتا ہے جس کا ہم شکار ہوئے۔ اس کے برعکس ایک فعال اور ترقی پذیر نظام لچکدار ہوتا ہے۔ یہ نظام نئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں اصلاحات کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے تاکہ درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہا جا سکے۔
جن لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکے گی انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں‘ اب سسٹم کو ریورس نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں حزبِ اختلاف کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ ان کا کام صرف حکومت کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ حکومت کو درست سمت میں چلانے کیلئے تجاویز اور اصلاحات کی ترغیب دینا ہے۔ اگر حزبِ اختلاف صرف نظام کو روکنے یا اسے مفلوج کرنے کی کوشش کرے گی تو یہ قومی ترقی میں رکاوٹ بنے گی۔ حزبِ اختلاف کو چاہیے کہ حکومت کے ساتھ مل کر ایسا نظام تشکیل دے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بنے۔
ملک میں موجودہ سیاسی استحکام کو ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں ترقی اور خوشحالی کیلئے حکومت‘ اپوزیشن اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ صوبوں کو مخاصمت کی راہ اپنانے کے بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وفاق کو کمزور کرکے صوبے قطعی طور پر مضبوط نہیں ہو سکتے ہیں۔ مضبوط اور متحدہ وفاق نہ صرف ملکی استحکام کی ضمانت ہے بلکہ یہ صوبوں کی ترقی اور خوشحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مضبوط وفاق کا فائدہ براہِ راست صوبوں کو پہنچتا ہے۔ وفاقی حکومت وسائل کی منصفانہ تقسیم کرکے پسماندہ علاقوں کی ترقی میں مدد دیتی ہے۔ وفاق کے ترقیاتی منصوبوں سے صوبوں کے دور اُفتادہ علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور وہ ترقی کی دوڑ میں شامل ہو پاتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو وسیع تر اختیارات ملنے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان اقتدار کی تقسیم میں توازن پیدا ہوا ہے۔ صوبوں کی خودمختاری میں اضافے سے عوام کو اپنے منتخب نمائندوں سے براہِ راست رابطے اور مسائل کے حل کا زیادہ موقع ملا ہے تاہم جب وفاق اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے تو شکایات پیدا ہونے لگتی ہیں حالانکہ اٹھارہویں ترمیم میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو ان کے دائرہ کار میں وسیع تر قانون سازی کا اختیار مل گیا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں اب تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ پانی‘ بجلی‘ پولیس‘ مقامی حکومت‘ سماجی بہبود اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں قوانین بنا سکتی ہیں۔ وفاقی حکومت صرف دفاع‘ خارجہ امور‘ کرنسی‘ مواصلات اور بین الصوبائی تجارت جیسے امور میں ہی قوانین بنا سکتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو زیادہ مالیاتی خود مختاری ملی ہے۔ اب صوبے اپنے وسائل پر زیادہ کنٹرول رکھتے ہیں اور وفاق سے ملنے والے فنڈز کو مرضی کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس سے صوبوں کو اپنی ترقی کی منصوبہ بندی اور وسائل کے استعمال میں زیادہ آزادی ملی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو انتظامی امور چلانے کا وسیع اختیار بھی دے دیا ہے۔ صوبائی حکومتیں اب اپنے ملازمین کی تقرری اور مقامی حکومتوں کا نظم و نسق خود سنبھال سکتی ہیں۔ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے‘ جہاں مختلف صوبوں کو ملا کر ایک مضبوط مرکز کی تشکیل کی گئی ہے۔ یہ وفاقی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں کی ضروریات اور مسائل کا خیال رکھا جائے اور سب کی ترقی میں یکساں طور پر حصہ لیا جائے‘ تاہم جب وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات اور ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ ترقی میں رکاوٹ ہی نہیں ملک کی سلامتی اور استحکام کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا وفاق کے ساتھ مخاصمانہ رویہ اختیار کرکے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کی حکومت خیبرپختونخوا میں ہے جبکہ وفاق اور باقی تین صوبوں میں اتحادی حکومتیں ہیں۔آصف زرداری ایوانِ صدر کے نئے مکین ہیں جو پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایوان کی نئی پوزیشن کے مطابق حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ ایوان کے اندر اور صدرِ مملکت سے منظوری میں حکومت کو قانون سازی میں بظاہر دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اگرچہ وفاق میں اتحادی ہیں اور ایک دوسرے کی حمایت کر رہی ہیں لیکن صوبوں میں کارکردگی کے اعتبار سے مسابقتی عمل بھی جاری ہے تاکہ اپنی اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا دونوں صوبوں سے پیچھے نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کی تقریبِ حلف برداری میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی عدم شرکت کی کسی حد تک گنجائش نکل سکتی ہے مگر جب وزیراعظم چند روز قبل بارش متاثرین کو چیک تقسیم کرنے اور امن و امان کے معاملات کیلئے طلب کیے گئے اجلاس کیلئے پشاور گئے تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور وہاں بھی موجود نہیں تھے۔ اختلافات اپنی جگہ مگر وزیراعظم کی آمد پر اصولی طور پر وزیراعلیٰ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا جس راستے پر چل رہے ہیں اس پر انہیں خود‘ ان کی پارٹی اور صوبے کو نقصان ہونے کا احتمال ہے کیونکہ سسٹم ریورس نہیں ہو سکتا۔ کچھ دنوں میں صوبے کو مالی معاملات کیلئے اجلاسوں میں شرکت کرنا ہو گی‘ اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا طرزِ عمل کیا ہو گا؟
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو جب حکومت ملی تو انہوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ انہیں انتظار کا پھل ملا‘ ان کی قیادت جیلوں سے اقتدار تک پہنچی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف انتظار پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ ہر موقع پر عجلت کا مظاہرہ کیا گیا کہ شاید ان کی مقبولیت کی وجہ سے سسٹم رُک جائے گا اور اقتدار دوبارہ ان کی جھولی میں آن گرے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آئندہ بھی سسٹم نہیں رُکے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام استفسار کریں کہ تیسری بار حکومت ملنے کے باوجود صوبے کے لوگوں کیلئے کیا کیا گیاہے؟ ضروری ہے کہ وفاق اور صوبے مل کر کام کریں اور آئین کے تحت اپنے اختیارات کا احترام کریں۔ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور قومی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے۔