"RS" (space) message & send to 7575

پاک افغان دوریاں

خیبرپختونخوا اور بلوچستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ دہشت گرد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ 16مارچ کو دہشت گردوں نے افغانستان سے ملحقہ سرحدی ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی جو سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دی۔ اس ناکامی پر دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی۔ اس حملے میں پاک فوج کے دو افسران اور پانچ جوان شہید ہو گئے جبکہ جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد بھی مارے گئے۔ چونکہ ان حملہ آوروں کے افغانستان سے آنے کے ٹھوس شواہد موجود تھے اس لیے پاکستان نے افغانستان کے اندر فضائی کارروائی کرتے ہوئے حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ افغان قیادت نے اس کارروائی کو اگرچہ اپنی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے‘ تاہم پاکستان کیلئے یہ انتہائی اقدام اُٹھانا ناگزیر ہو گیا تھا کیونکہ اس سے قبل پاکستان نے متعدد بار افغان قیادت کے سامنے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا معاملہ رکھا‘ اسے حل کرنے کیلئے سنجیدہ سفارتی کوششیں کیں‘ علما کے وفود بھیجے مگر افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان کے اندر اس فضائی کارروائی سے دہشت گردی رک جائے گی؟ آثار سے ایسا محسوس نہیں ہوتا بلکہ معاملہ پہلے سے زیادہ خراب ہو چکا ہے۔ طالبان قیادت نے حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کیلئے مشترکہ چیلنج ہے۔ اس ضمن میں ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں ممالک ایک پیج پر ہوں اور ایک دوسرے سے تعاون کرکے اس چیلنج پر قابو پائیں لیکن برادر اسلامی ممالک ہونے کے باوجود دونوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ جغرافیائی حیثیت جانے بغیر یہ گتھی نہیں سلجھ سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ خبیرپختونخوا اور بلوچستان کے افغان سرحد سے متصل علاقے پہاڑی اور دشوار گزار ہیں۔ دراصل یہی علاقے دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں۔ جس طرح ہمیں شکوہ ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا‘ اسی طرح افغان قیادت کو بھی پاکستان سے شکوہ ہے۔ اس شکوے کی بنیادی وجہ جغرافیائی حیثیت ہی ہے۔ افغانستان کے دو صوبے پکتیا اور پکتیکا کی سرحد پاکستان کے قبائلی اضلاع سے متصل ہے۔ ان صوبوں میں داعش اور مسلح گروہوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ یہ مسلح گروہ نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کیلئے بھی خطرہ ہیں۔ پکتیا کا ضلع اورگُن اور پکتیکا کا ضلع برمل شمالی وزیرستان سے متصل ہیں۔ پکتیا کا ضلع ڑاڑی اور پکتیکا کا ضلع سروبی جنوبی وزیرستان سے متصل ہیں۔ پکتیا کا ضلع نسی اور پکتیکا کا ضلع گومل ژوب سے متصل ہیں۔ 2022ء میں داعش نے پکتیکا کے علاقے گومل میں ایک بڑا حملہ کیا تھا جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پکتیا میں بھی شدت پسند گروہوں کی سرگرمیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ 2023ء میں طالبان نے پکتیا کے علاقے جانی خیل میں ایک بڑی کارروائی کی تھی جس میں داعش کے کئی اہم کمانڈر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان طالبان بھی ان مسلح گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ مذکورہ علاقوں میں دہشت گردی کی بڑی وجہ ان علاقوں کا دشوار گزار پہاڑی جغرافیہ ہے جس کی وجہ سے فورسز کیلئے ان علاقوں تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں قبائلی رسم و رواج بھی دہشت گردوں کو پناہ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کنڑ‘ ننگرھار‘ زابل‘ ہلمند‘ لوگر اور خوست میں بھی مسلح گروہوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ یہ علاقے دہشت گردوں کو ایک ملک میں کارروائی کرکے دوسرے ملک میں فرار ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ افغان قیادت ان مسلح گروہوں کو اپنے لیے خطرہ تسلیم کرتی ہے مگر پاکستان کے ساتھ تعاون کیلئے تیار نہیں ہے۔ افغان قیادت کے عدم تعاون کے باعث پاکستان کیلئے اس مسئلے کا یکطرفہ حل نکالنا نہایت مشکل ہے۔
افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد بھی پراکسی وار جاری ہے جس میں کالعدم ٹی ٹی پی ہر اول دستہ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اس پراکسی وار کے پیچھے موجود قوتیں ٹی ٹی پی کو فنڈنگ کر رہی ہیں لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مسلح گروہ افغان سرزمین پر ہی پناہ گزین ہیں‘ سو افغان طالبان یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں کہ دہشت گردی ان کیلئے بھی برابر چیلنج ہے۔ اگر کسی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔ افغانستان کی غذائی ضروریات کا بڑا حصہ پاکستان سے جاتا ہے‘ اسی طرح طویل خانہ جنگی کے بعد افغانستان کو تعمیر نو کی بھی ضرورت ہے‘ یہ دونوں مقاصد پاکستان کیساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر بہتر طور پر حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ اس لیے سفارت کاری اور بات چیت کا دورازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ پاک افغان کشیدگی سے بھارت بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ چند روز پہلے افغانستان کیلئے بھارت کے نمائندہ خصوصی جے پی سنگھ نے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے کابل میں ملاقات میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے تجارت بڑھانے کی پیشکش کی تھی۔ بھارت افغانستان کیساتھ تجارتی تعلقات کو انسانی بنیادوں پر امداد کا نام دے رہا ہے‘ اس کے برعکس پاکستان اور افغانستان پڑوسی اور مشترکہ کلچر کے باوجود ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔ پاک افغان تجارت ایک ارب ڈالر سالانہ تک محدود ہو گئی ہے کیونکہ افغانستان پاکستان کی بجائے ایران اور بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا رہا ہے۔ افغانستان کے بھارت کیساتھ تعلقات محض تجارتی نہیں ہیں بلکہ بھارت تجارت کی آڑ میں دراصل پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے جیسا کہ ماضی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں موجود بھارت کے درجنوں قونصل خانے پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث تھے۔
دہشت گردی سے بچنے کیلئے پاکستان کے پاس موجود آپشنز میں سے ایک افغان مہاجرین کی بے دخلی کا ہے کیونکہ جرائم اور دہشتگردی کے متعدد واقعات میں افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر پہلے مرحلے میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو پاکستان سے بے دخل کیا گیا۔ اب تک تقریباً چار لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ پاکستان کا یہ اقدام افغان طالبان پر گراں گزرا۔ انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا لیکن پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہا۔ اس دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا تو پاکستان نے دوسرے مرحلے میں اُن افغان شہریوں کو بھی واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو یہاں قانونی طور پر مقیم ہیں۔ مہاجرین کی واپسی پر افغان قیادت کو پہلے ہی تحفظات تھے‘ دوسرے مرحلے میں افغانوں کی واپسی سے تلخی مزید بڑھ جائے گی۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ افغان قیادت مہاجرین سمیت ہر قسم کا پریشر برداشت کر رہی ہے مگر ٹی ٹی پی کے خلاف خود کارروائی کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی انہیں بے دخل کرنا چاہتی ہے کیونکہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف جنگ میں شامل رہی ہے۔ اس لیے افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنا محسن مانتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جغرافیائی سیاست اور معاشی مقاصد کا ادراک کرکے آگے بڑھنا ہی دانشمندی کہلائے گا۔ امریکہ جو جنگ بھاری بجٹ اور کئی ملکوں کی فوج کے ساتھ لڑ رہا تھا‘ اب اس کا یہی مقصد چند مسلح گروہوں سے پورا ہو رہا ہے۔ پاکستان اور افغان قیادت کی دوری دونوں کیلئے نقصان دہ ہو گی۔ سو ضروری ہے کہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے۔ عید کے بعد مہاجرین کی بے دخلی کے فیصلے کو مؤخر کر کے بات چیت کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں