"RS" (space) message & send to 7575

منزل سے دوری کے اسباب

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ ترقی اور خوشحالی کا خواہاں ہو۔ حکومتیں جو عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہیں‘ ان خواہشات کو پورا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ اس لیے برسراقتدار سیاسی جماعتیں ترقیاتی منصوبوں کو اپنی حکمتِ عملی کا مرکزی ستون بناتی ہیں۔ یہ منصوبے نہ صرف عوام کی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں بلکہ حکومتوں کی ساکھ اور عوامی حمایت کو بھی مستحکم کرتے ہیں۔جب حکومتیں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کرتی ہیں توعوام کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ وہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے پُرعزم ہیں۔ سیاسی جماعتیں درحقیقت بڑے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت عوام کے ذہنوں میں زندہ رہتی ہیں جیسے مسلم لیگ (ن) موٹروے کا کریڈٹ لیتی ہے‘شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو بس چلائی۔ خیبرپختونخوا حکومت نے بھی قدم اٹھایا ‘خیبر پختونخوا کے اس میگا پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد اکتوبر 2017ء میں رکھا گیا جس کی تکمیل کے لیے چھ ماہ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی مگرپی ٹی آئی کی حکومت نے اگست 2020ء میں بی آر ٹی کا افتتاح کیا۔ 50 لاکھ گھروں کا منصوبہ بھی اس سوچ کے تحت لایا گیا تھا تاہم حکومت ختم ہو گئی اور اس منصوبے پر عملی طور کام نہ ہو سکا۔ میگا پراجیکٹس کیلئے درکار بجٹ کی عدم دستیابی منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں برسراقتدار جماعتوں کیلئے میگا پراجیکٹس تو کجا عوام کو ضروریاتِ زندگی میں ریلیف فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے‘ خیبرپختونخوا کی مالی حالت دوسرے صوبوں سے بھی خراب ہے۔ صوبہ اپنی مالی ضروریات کا بڑا حصہ وفاق سے حاصل کرتا ہے مگروفاق سے فنڈز کے حصول میں اس وقت تعطل آ جاتا ہے جب وفاقی حکومت خود معاشی بحران کا شکار ہوتی ہے۔ مالی بحران کے پیشِ نظر خیبرپختونخوا میں ایک ماہ کیلئے نئی اسامیوں کی تخلیق پر پابندی عائد کر دی گئی ہے‘ محکمہ خزانہ نے کفایت شعاری پلان سے متعلق اعلامیے میں کہا ہے کہ ایمبولینسز کے علاوہ کسی بھی گاڑی کی خریداری پر پابندی عائد ہے‘ سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک علاج معالجے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے اور غیر مستقل ملازمین کو کسی صورت مستقل نہیں کیا جائے گا۔ یوں مالی بحران میں میگا پراجیکٹس ایک خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر سیاسی عدم استحکام اور احتجاج بھی شروع ہو جائے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اپوزیشن نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے جس کاآغاز بلوچستان سے ہو چکا ہے‘ اس اتحاد میں چھ جماعتیں شامل ہیں‘ احتجاجی تحریک کو'' تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو چھ جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔ احتجاجی تحریک کاآغاز بلوچستان سے ہی کیوں؟ کیا بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے؟ کیا بلوچستان میں پی ٹی آئی کا مضبوط ووٹ بینک ہے؟ خیبرپختونخوا میں تو پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بھی ہے اور دو تہائی اکثریت کی بنا پر انہیں افرادی قوت بھی میسرآ سکتی ہے اس کے باوجود بلوچستان سے احتجاجی تحریک کے آغاز کا مطلب کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پی ٹی آئی کو افرادی قوت میں کمی کا سامنا ہے اور دیگر جماعتوں کی حمایت سے یہ کمی دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ مولانا فضل الرحمان متوقع طور پر سٹریٹ پاور فراہم کر سکتے ہیں‘ جیسا کہ2019 ء میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ایما پر پی ٹی آئی کے خلاف'' آزادی مارچ‘‘ کیا تھا۔آزادی مارچ مولانا فضل الرحمان کے کارکنوں نے کیا تھا‘ بظاہر وہ اسلام آباد سے ناکام لوٹے تھے تاہم حقیقت یہ ہے کہ آزادی مارچ کے درپردہ فوائد سے دونوں جماعتیں مستفید ہوئیں۔
بلوچستان شدت پسند عناصر کی آماجگاہ بن چکا ہے‘اگلے روز نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد نے مسافر بس سے پنجاب کے نو افراد کو اغواکرنے کے بعد قتل کر دیا ‘ سکیورٹی کے اعتبار سے حساس سمجھے جانے والے اس صوبے میں اگر سیاسی جلسے شروع ہوں گے تو سنگینی بڑھ سکتی ہے ۔احتجاج جمہوریت کا حسن اور سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے جس سے انہیں محروم نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن اس احتجاج کی ٹائمنگ ملاحظہ ہو کہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت آئی ایم ایف سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط رواں ماہ ملنی ہے‘ اس کے بعد حکومت کو نئے قرضے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہے۔ ایسے حالات میں اپوزیشن کا احتجاج ترقی کے سفر کو روکنے کے مترادف ہو گا‘ کیونکہ آئندہ چند دنوں میں اہم معاہدے متوقع ہیں جس کیلئے اندرونی سطح پر سیاسی استحکام ضروری ہے۔سیاسی عدم استحکام میں بیرونی ممالک ہم پر اعتبار نہیں کریں گے۔ قرض کے حصول میں مشکلات ہوں گی تو مالی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جب وفاق معاشی بحران کا شکار ہو گا تو اس کے اثرات صوبوں پر بھی پڑیں گے۔ ان اثرات سے خیبرپختونخوا دیگر صوبوں سے زیادہ متاثر ہو گا۔ سعودی عرب سے بھی سرمایہ کاری کی امید بندھی ہوئی ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ٔسعودی عرب میں ابتدائی مرحلے میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر پیش رفت ہوئی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کا وعدہ اگرچہ دیرینہ ہے لیکن سرمایہ کاری نہ آنے کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔ اگر سیاسی عدم استحکام کی فضا جاری رہی تو بیرونی سرمایہ کاری میں مزید تاخیر ہو گی جیسا کہ اس سے پہلے ہوا۔ قارئین یاد کر سکیں تو فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان کے موقع پر سعودی سرمایہ کاری کا وعدہ ہوا تھا اور 20 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے تھے۔ اُس وقت بلوچستان کے صنعتی شہر گوادر میں آٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے آئل ریفائنری کے بڑے چرچے تھے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی سعودی سرمایہ کاری کی بات ہوتی رہی مگر عملی طور پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ سیاسی انتشار اس سرمایہ کی راہ میں حائل رہا۔ اب جبکہ سیاسی جماعتوں نے مشترکہ احتجاج کا اعلان کیا تو لگا کہ جونہی معیشت ٹریک پرآنے لگتی ہے ایک طبقہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنے کیلئے کندھا فراہم کرنے میں پیچھے نہیں رہتا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کی کشتی ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جسے لگاتار بلند لہروں کا سامنا ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہمالیہ کی چوٹیوں کو چھُو رہا ہے‘ حکومت نے معاشی مشکلات سے نمٹنے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں ان میں ٹیکسوں اور قرضوں میں اضافہ شامل ہے‘ تاہم ان اقدامات کے اثرات جلد مرتب نہیں ہوں گے اور عام آدمی کو ان سے ریلیف حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ٹیکسوں میں اضافے سے حکومتی آمدن میں اضافہ ضرور ہو گا لیکن اس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔ نتیجتاً غریب اور متوسط طبقے کی قوتِ خرید مزید کم ہو جائے گی اور ان کی زندگیوں پر شدید منفی اثر پڑے گا۔اس طرح ترقیاتی اخراجات میں کمی سے اگرچہ حکومت کو پیسے بچانے میں مدد ملے گی لیکن اس سے ترقیاتی منصوبوں پر اثر پڑے گا۔ نتیجتاً معاشی ترقی سست ہو سکتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔ قرضوں میں اضافے سے حکومت کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس سے قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا‘ نتیجتاً مستقبل میں حکومت کو قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑیں گے جس سے دوسرے شعبوں کیلئے کم پیسہ دستیاب ہو گا۔ اس لیے مجموعی طور پرحکومت کے اقدامات کے اثرات جلد مرتب نہیں ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاری ہی معاشی بحران سے نجات کا دیرپا حل ہے۔ جس طرح جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے اسی طرح منتخب حکومت کو کام کا موقع دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر احتجاج میں مصروف رہیں اور بیرونی سرمایہ کاری کے اہم موقع کو گنوا دیں تو ہم منزل سے دور ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں