مملکت کی ترقی ایک خوبصورت باغ کی مانند ہوتی ہے‘ جس کی رونق اور شادابی تین بنیادی اسباب پر قائم ہے۔ یہ ہیں: مؤثر سیاست‘ مضبوط معیشت اور پائیدار سلامتی۔ سیاست اس باغ کی نگران ہے‘ جو دور اندیشی اور حکمت سے فیصلے کرکے باغ کی نشو و نما کا خیال رکھتی ہے۔ ایک فعال حکومت وہ ماحول فراہم کرتی ہے جس میں معیشت ترقی کر سکے اور عوام خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یہ حکومت قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی بنیاد فراہم کرتی ہے تاکہ معاشرے میں امن و استحکام کا ماحول قائم ہو۔ جیسے ایک باغباں پودوں کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے‘ اسی طرح ایک مؤثر سیاسی نظام تعلیم‘ صحت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ دیتا ہے‘ جو ترقی کی راہ کا روشن چراغ بنتے ہیں۔ معیشت اس سرزمین کی زرخیزی ہے‘ جس سے ترقی کے پودے نشو نما پاتے ہیں۔ مضبوط معیشت وہی ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے‘ عوام کی آمدنی میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور سرمایہ کاری کو راغب کرتی ہے۔ یہ ایسا ماحول تشکیل دیتی ہے جہاں کاروبار پھلتے پھولتے ہیں اور نئی ایجادات وجود میں آتی ہیں۔ جیسے مٹی کی زرخیزی پودوں کو پروان چڑھاتی ہے‘ اسی طرح مضبوط معیشت ترقی کیلئے ضروری وسائل فراہم کرتی ہے۔ ایک ایسی معیشت‘ جہاں برابری کا خیال رکھا جائے اور غربت کم ہو‘ ریاست کے باغ کی شادابی میں اضافہ کرتی ہے۔ سلامتی اس باغ کا تحفظ ہے‘ جو بیرونی خطرات سے اس کی حفاظت کرتی ہے۔ مضبوط فوج اور مؤثر سکیورٹی نظام یقینی بناتا ہے کہ امن و امان کی فضا قائم رہے اور کوئی بیرونی طاقت اس ترقی میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ جیسے ایک مضبوط باڑ باغ کو موسموں کی سختیوں سے بچاتی ہے‘ اسی طرح پائیدار سلامتی ترقی کے سفر میں استحکام کا باعث بنتی ہے۔ محفوظ ماحول ہی میں تعلیم‘ صحت اور معیشت کی ترقی ممکن ہے۔ یہ تینوں عناصر آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ مؤثر سیاست کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی اور مضبوط معیشت کے بغیر سلامتی کا نظام چلانا مشکل ہے۔ اسی طرح پائیدار سلامتی کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہ عناصر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں توایک مضبوط اور ترقی یافتہ ریاست وجود میں آتی ہے۔ یہ وہ سنگم ہے جہاں ترقی کے پھول کھلتے ہیں اور عوام خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ترقی کی راہ میں سیاست‘ معیشت اور سلامتی کا یہ سنگم انتہائی اہم ہے۔ ان تینوں عناصر پر توجہ دے کر ہی کوئی ملک ترقی کی بلندیوں کو چھُو سکتا ہے اور اپنے عوام کیلئے خوشحال اور پُرامن مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
دنیامیں کئی ممالک کو مختلف ادوار میں معاشی بحران اور سکیورٹی کے چیلنجز کا سامنا رہا۔ ایسے حالات میں وہاں کی حکومتوں نے دور اندیش اور مشکل فیصلے کرکے بحرانوں کا مقابلہ کیا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں۔ چین‘ سنگاپور اور چلی سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ 1949ء میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے وقت یہ ملک معاشی طور پر تباہ حال اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔ نئی حکومت نے معاشی اصلاحات کا آغاز کیا جس میں مرکزی منصوبہ بندی‘ صنعتوں کی قومی ملکیت اور زرعی اصلاحات شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بھی توجہ دی گئی۔ کچھ عرصے بعد مارکیٹ اکانومی کے بعض عناصر کو بھی شامل کیا گیا جس سے تیز رفتار ترقی ہوئی۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور اس نے غربت کے خاتمے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔اسی طرح سنگاپور آج ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک غریب جزیرہ تھا۔ 1965ء میں ملائیشیا سے علیحدگی کے بعد اسے معاشی مشکلات کا سامنا تھا۔ بے روزگاری‘ غربت اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی سنگاپور کے بڑے چیلنجز تھے۔ اُس وقت کی حکومت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی وسائل اور افرادی قوت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ کچھ ہی برسوں میں سنگاپور نے خود کو ''ایشیاکے ٹائیگر‘‘ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی وجہ سے سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ ہوا۔ حکومت نے تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بھی توجہ دی جس سے ہنر مند افرادی قوت تیار ہوئی اور تجارت کو فروغ ملا۔ سنگاپور کی یہ کامیابی ایک روشن مثال ہے کہ مشکل فیصلوں اور حکمت عملی کے ذریعے معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے۔ایک مثال چلی کی بھی پیش کی جا سکتی ہے جس نے غربت اور معاشی عدم مساوات کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں چلی کی معیشت سیاسی عدم استحکام اور غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہو چکی تھی۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل آگسٹو پینوشے کی حکومت نے مارکیٹ کی اصلاحات اور آزاد تجارت پر مبنی اقتصادی پالیسیاں متعارف کرائیں۔ ان پالیسیوں کے دور رَس نتائج برآمدات میں اضافے اور غربت میں کمی کی صورت میں سامنے آئے‘تاہم یہ تبدیلیاں سماجی عدم مساوات کو کم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ چلی کی مثال ہمیں یہ بتاتی ہے کہ معاشی ترقی ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ سماجی انصاف کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے۔
ترقی کیلئے بروقت اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم نظریۂ ضرورت کے تابع ہو کر فیصلے کرتے رہے ہیں۔ اقتدار کے شراکت دار نظریۂ ضرورت سے بالا تر ہو کر سوچنے سے قاصر رہے‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہیں۔ معیشت کی بحالی اور سکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ سخت فیصلوں کا متقاضی ہے۔ سکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاستی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ معیشت کی بحالی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات بھی تسلی بخش قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کیلئے ایف بی آر کی تنظیم ِنو‘ بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن اور سمگلنگ کے خلاف جو کارروائیاں کی جا رہی ہے اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئیں‘یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے پاکستانی معیشت کو مثبت قرار دے رہے ہیں‘مگر سیاسی انتشار کا چیلنج اپنی جگہ موجود ہے۔ صدرِ مملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں آگے کا لائحہ عمل دیا ہے‘ انہوں نے سیاسی و معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کوششوں پر بھی زور دیا۔ صدرِ مملکت نے سیاسی ماحول کو ازسرِنو ترتیب دینے کی بھی پیشکش کی ‘ تاہم اس کے خدوخال واضح نہیں کیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدرِ مملکت پوری گائیڈ لائن دیتے۔مگر اس پیشکش کی جو مخاطب جماعت تھی وہ ایوان کے اندر سراپا احتجاج بنی رہی۔صدرِ مملکت سیاسی اختلافات کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہیں تو عملی طور پر اقدام اٹھانا چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بظاہر حکومت کو کوئی خطرہ نہیں مگر سیاسی انتشار کو بہر طور ختم ہونا چاہیے۔ اقتدار میں شامل جماعتیں اس زعم میں ہیں کہ بڑی جماعتیں ایک پیج پر ہیں‘ اگر یہ اتحاد کامیابی سے چلتا رہا تو پی ٹی آئی کو پانچ سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔ دونوں حکومتی اتحادی جماعتیں اپنے تئیں یہ بھی سمجھ رہی ہیں کہ ان کے اتحاد سے ایوان مضبوط ہو گا اور انہیں قانون سازی میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ اول تو سیاسی اتحاد کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی‘ معمولی تلخی بھی اتحاد کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے‘ جیسے کچھ عرصہ پہلے شاہد خاقان عباسی نے بطور پی ڈی ایم جنرل سیکرٹری پیپلزپارٹی رہنماؤں کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا‘ مگر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس پر توقع سے زیادہ ردِعمل دیا اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے اتحاد سے نکل گئی۔ سیاسی اتحاد ٹوٹنے کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں‘ سو اقتدار میں رہتے ہوئے حزبِ مخالف کیلئے گنجائش پیدا کرکے آگے بڑھنا ہی دیرپا حل ہے۔ حکومت نے معاشی بحران کے خاتمے اور سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جو فیصلے کیے ہیں سیاسی انتشار کے خاتمے کیلئے ویسے فیصلوں کا فقدان کیوں ہے؟ مفادات کے تابع کیا جانے والا بندوبست عارضی کہلائے گا اور مضبوط سیاسی اقدار کے بغیر مملکت کے خوبصورت باغ کی شادابی ماند رہے گی۔