کیا تحریک انصاف پر پابندی محض مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے؟ کیا پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں پابندی کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دیں گی؟ حکومت کیلئے ایک بڑی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا آسان ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ ملک کو آگے لے جانا ہے تو پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنا ہو گی ۔ پیپلز پارٹی حکومت کی اتحادی جماعت ہے‘ اور اس کے بعض رہنماؤں نے اس قسم کی پابندی کے اقدام کو مسترد کیا ہے‘ تاہم پیپلز پارٹی بطور حکومتی اتحادی جماعت اس اقدام کے حق میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس ضمن میں لیگی قیادت اور پیپلز پارٹی کی وفود کی سطح پر ایک ملاقات بھی ہو ئی ہے جس میں لیگی وفد نے اس حوالے سے بریفنگ دی۔ پیپلز پارٹی نے مشاورت کیلئے کچھ وقت مانگا ہے مگر اس ملاقات میں ایسا کوئی تاثر نہیں ملتا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا ہے۔
اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے انتہائی اقدام پر کیوں تُل گئی ہے؟ حالیہ دنوں میں مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے علاوہ کوئی ایسا بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا۔ اس فیصلے سے اگرچہ حکومت کو خطرہ نہیں کیونکہ اتحادیوں کے ووٹ پورے ہیں‘ تاہم حکومت کا خیال ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کو پہلے عدالتوں سے ریلیف ملایہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ قانونی ماہرین کا ایک حلقہ سمجھتا ہے کہ کیس میں پی ٹی آئی فریق نہیں تھی پھر بھی اس کے حق میں فیصلہ آ گیا۔
حکومت سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کو عدالتی ریلیف ملے گا تو حکومت کیلئے معاشی منصوبوں پر عمل درآمد آسان نہیں ہو گا۔ حکومت کیلئے پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اکیلے کرنا آسان نہیں‘ تو کیا پیپلز پارٹی اس کام میں حکومت کا ساتھ دے گی یا حکومت نے جلد بازی میں فیصلہ پہلے کیا اور اس پر مشاورت بعد میں کی جا رہی ہے؟ ہماری ناقص رائے کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کا نہیں‘ ریاست کا کام ہے۔ سیاسی جماعتوں نے تو مصالحت کی کوششیں کیں‘ وزیر اعظم نے ایوان میں مذاکرات کی پیشکش کی‘ میثاقِ معیشت کیلئے دستِ تعاون بڑھایا مگر پی ٹی آئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ جب ریاستی امور میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی جائے گی‘ جب عسکری قیادت کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جائے گی تو ریاست کے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن رہ جاتا ہے؟
پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کا سُن کر بہت سے لوگ حیران ہیں کہ جس جماعت کے کروڑوں ووٹرز ہیں اس پر دوسری سیاسی جماعت پابندی کیسے لگا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ریاست کی رِٹ کو قائم کرنا ہوتا ہے جس سے ریاست قوانین کو نافذ کرتی ہے‘ شہریوں کی حفاظت کرتی ہے اور امور حکومت چلاتی ہے۔ مضبوط ریاستی رِٹ اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ملک میں امن و امان قائم رہے‘ قانون کی حکمرانی ہو اور شہریوں کے حقوق محفوظ رہیں۔ ریاست کی رِٹ صرف طاقت اور اختیار تک محدود نہیں۔ اس میں انصاف اور مساوات کے تصورات بھی شامل ہیں۔ منصفانہ اور مساوی ریاستی رِٹ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور انہیں قانون کے تحت برابر مواقع حاصل ہوں۔ ریاستی رِٹ قومی یکجہتی‘ قانون کی بالادستی اور شہریوں کی حفاظت کا مضبوط ستون ہے۔ جب یہ ستون کمزور پڑتا ہے تو معاشرے کی بنیاد ہی ڈگمگا جاتی ہے۔ اس کمزوری سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا سلسلہ طویل ہے۔ سب سے نمایاں چیلنج امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے۔ جب ریاست کی گرفت کمزور پڑتی ہے تو قانون کی گرفت بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ شدت پسند عناصر کھلے عام قانون کو پامال کرتے ہیں۔ اس سے پیدا ہونے والا خوف کا ماحول لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں خلل پڑتا ہے اور سرمایہ دار خوف زدہ ہو کر ملک چھوڑنے لگتے ہیں۔ یہ سب مل کر معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ کرپشن کا پھیلنا بھی ریاستی رِٹ کی کمزوری کا ایک سنگین نتیجہ ہے۔ جب ریاست کی پکڑ ڈھیلی ہوتی ہے تو مافیاز سر اٹھاتے ہیں۔ حکومتی اداروں میں گھس کر یہ مافیاز عوام کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ وسائل کی لوٹ مار ہوتی ہے اور غریب اور امیر کی دوریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سماج میں عدم مساوات کے بیج بو کر تناؤ پیدا کرتا ہے اور ملک کی ترقی کے راستے میں کانٹے بچھاتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بھی دراصل ریاستی رِٹ کیلئے ایک چیلنج ہے۔ ریاست کی رِٹ کی کمزوری کے ساتھ بعض سیاسی جماعتیں اور گروہ اپنے مفادات کیلئے قانون کی دھجیاں اڑانے لگتے ہیں۔ یہ صورتحال سیاسی کشیدگی کو جنم دیتی ہے اور ملک کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیلتی ہے۔
مضبوط حکومت ہی ریاست کی رٹ کو مؤثر طریقے سے نافذ کر سکتی ہے۔ حکومت کی مضبوط پکڑ سے ہی قانون کی بالادستی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ مجرموں میں قانون کا خوف پیدا ہوتا ہے اور شہریوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کا یقین ہوتا ہے۔ اس طرح سماج میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ حکومت کی طاقت صرف عسکری قوت تک محدود نہیں۔ یہ انتظامی صلاحیت‘ اقتصادی استحکام اور عوامی اعتماد پر بھی منحصر ہے۔جو حکومت شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے‘ جس کے پاس مؤثر پالیسیاں ہوتی ہیں اور جو کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کرتی ہے وہی ریاست کی رِٹ کو مضبوطی سے نافذ کر سکتی ہے‘ مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ریاستی طاقت کا استعمال مناسب ہونا چاہیے۔ طاقت کا غلط استعمال ریاست کی رِٹ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مثالی حکومت وہی ہوتی ہے جو اپنی طاقت کا استعمال قانون کے مطابق اور شہریوں کے مفاد میں کرتی ہے۔ جب کوئی طبقہ ریاست سے شکوہ کناں ہوتو پہلے مرحلے میں طاقت کے استعمال سے گریزکیا جانا چاہیے۔ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھے اور ان کے ساتھ نرم برتاؤ کرے۔ ہاں ریاست کی رِٹ کو للکارنے والے جتھوں کا معاملہ الگ ہے۔ اس وقت مختلف جتھے اور گروہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز شدت پسند عناصر سے نبرد آذما ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی سیاسی جماعت بھی تشدد کی راہ اپنا لے اور ریاست کی رِٹ پر سوال اٹھنے لگے تو ریاست جتھوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کے بجائے اپنی رِٹ بحال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کیلئے ضروری ہے کہ خود کو سیاسی جماعت ثابت کرے۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہوئے جس طرح عدالتوں سے رجوع کیا اور وہاں سے پی ٹی آئی کو ریلیف بھی ملا ہے تو دیگر قومی اداروں پر بھی اعتماد کا اظہار کرے۔ اگر اپنا حق چھین کر حاصل کرنے کی سوچ کو پروان چڑھایا گیا تو ریاست اپنی رِٹ کو بحال کرے گی اور پابندی سے سخت اقدام بھی سامنے آ سکتا ہے۔