بھارت خطے کے ہر معاملے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہر سطح پر بھارت کا منفی کردار عیاں ہے اور مودی کے بیانات اس تاثر کی تصدیق کرتے ہیں۔ ثقافتی ورثے کے وہ مقامات‘ عمارتیں اور قدرتی نظارے‘ جنہیں انسانی تہذیب اور قدرتی تاریخ کے سبب عالمی ورثہ تسلیم کیا جاتا ہے‘ یہ صرف ایک ملک یا علاقے کی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک مشترکہ اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں‘ مگر کھیل کے میدانوں سے لے کر مشترکہ عالمی ثقافتی ورثہ تک‘ بھارت کی پست ذہنیت کو ہر سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تہذیب کی جڑیں تاریخ کے گہرے سمندر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تہذیبی ورثہ صرف عمارتوں‘ مجسموں اور کتابوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں انسان کے خواب‘ ارمان‘ فلسفے اور روایات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے ماضی کا آئینہ ہے جس سے ہم اپنی جڑوں سے وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ اس میں ہمارے مستقبل کی راہنمائی کا سامان بھی ہے کہ ہم کس سمت میں قدم بڑھائیں۔ اس عظیم الشان ورثے کی حفاظت اور ترویج کے لیے دنیا بھر میں کوششیں کی جاتی ہیں۔194 رکن ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ کی تعلیمی‘ سائنسی اور ثقافتی تنظیم تعلیم‘ سائنس‘ ثقافت‘ مواصلات اور معلومات کے میدان میں قیادت کے ذریعے امن و سلامتی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ پیرس میں قائم اس ادارے کے 54 ممالک میں دفاتر ہیں اور اس میں 2300 سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ یونیسکو دو ہزار سے زائد عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات‘ حیاتیاتی ذخائر اور عالمی جیو پارکس‘ جامع اور پائیدار شہروں کے نیٹ ورکس اور 13 ہزار سے زائد وابستہ سکولوں‘ یونیورسٹی چیئرز‘ تربیتی‘ تخلیقی اور تحقیقی اداروں کی نگرانی کرتا ہے۔
یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں وہ تمام مقامات شامل کیے جاتے ہیں جو انسانیت کے لیے خاص ثقافتی یا قدرتی اہمیت کے حامل ہوں۔ یہ مقامات اپنی تاریخ‘ فن تعمیر‘ ثقافتی اہمیت یا قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی حکومت یا غیر سرکاری تنظیم یونیسکو کو کوئی تاریخی و ثقافتی مقام عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔ نامزد مقام کا کچھ مخصوص معیارات پر پورا اترنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ معیارات تاریخی‘ ثقافتی اور قدرتی اہمیت سے متعلق ہوتے ہیں۔ یونیسکو کی آزاد ماہرین کی ٹیم نامزد مقام کا دورہ کرتی ہے اور اس کی اہمیت کا تخمینہ لگاتی ہے۔ آخر میں یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ نامزد مقام کو عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ جب کسی مقام کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے تو یونیسکو مختلف ذرائع سے فنڈز جمع کرتا ہے اور پھر ان فنڈز کو عالمی ثقافتی ورثہ کے مقامات کی حفاظت اور بحالی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ فنڈز ان مقامات کی حفاظت‘ بحالی اور ترقی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اگرچہ ثقافتی ورثے کی حفاظت کی کوششیں صدیوں سے جاری ہیں لیکن عالمی سطح پر اس کی حفاظت کے لیے باقاعدہ اور منظم کوششیں 20ویں صدی کے وسط سے شروع ہوئیں۔ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن نے اس عمل کو ایک نیا رخ دیا اور عالمی ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے قائم کیا۔ 1972ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کا کنونشن منظور کیا۔ یہ کنونشن عالمی ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا‘ جس کے تحت عالمی ثقافتی ورثہ کی ایک فہرست بنائی گئی اور مختلف ممالک نے اس ورثے کی حفاظت کے لیے مشترکہ کوششیں شروع کیں۔جب یونیسکو کسی مقام کا ذکر کرتا ہے تو اس کا عمومی مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس مقام کی ثقافتی‘ تاریخی یا قدرتی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یونیسکو دنیا بھر میں ایسے مقامات کی ایک فہرست تیار کرتا ہے جنہیں عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ مقامات ہوتے ہیں جنہیں انسانیت کے لیے ایک خاص ثقافتی یا قدرتی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ یونیسکو ان مقامات کو محفوظ کرنے کے لیے مختلف منصوبے شروع کرتا ہے‘ جس میں تعمیراتی کاموں سے لے کر لوگوں کو اس مقام کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا بھی شامل ہوتا ہے۔ یونیسکو مختلف ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلے کو فروغ دیتا ہے اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھاتا ہے۔
بھارت پہلی بار یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے اجلاس کا میزبان بنا ہے۔ یہ اجلاس 21 سے 31 جولائی جاری رہے گا۔ اس اجلاس میں دنیا بھر سے مختلف مقامات کو عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے تجاویز پیش کی گئیں اور ان پر غور کیا گیا۔ اس اجلاس میں پہلے سے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل مقامات کی حفاظت کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں اندراج کے لیے 27 مقامات کے تجاویز اور عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست اور عالمی ثقافتی ورثے کے خطرے کی فہرست میں پہلے سے شامل 124 مقامات کی تحفظ کی حالت کا جائزہ لیا جائے گا۔ بھارت نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان اور چین کے تاریخی مقامات یونیسکو کی فہرست میں شامل ہوں یا پہلے سے شامل مقامات کی دیکھ بھال یونیسکو کرے۔اس حوالے سے بھارت نے ہر ممکن رکاوٹ حائل کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی طور پر حکومت پاکستان نے ایک اعلیٰ سطح وفد بھارت بھجوانے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر بھارت کے منفی رویے اور ویزوں میں تاخیر کی وجہ سے پیرس میں پاکستانی ڈپٹی ہیڈ آف مشن(ڈی ایچ ایم) کو وفد کے ہمراہ بھارت بھیجا گیا۔ ڈی ایچ ایم حذیفہ خانم یونیسکو کے لیے پاکستان کی فوکل پرسن ہیں۔ پاکستانی وفد نے نئی دہلی میں منعقدہ عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کر کے بھارت کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی میں پاکستان اور چین کی لابی کو ترکیہ‘ سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان میں واقع عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات موہنجودڑو کے کھنڈرات اور مکلی کی تاریخی یادگاروں کی حفاظتی صورتحال کے حوالے سے رپورٹس پر فیصلے منظور کیے گئے۔ اسی طرح چین کے ایک مقام بیجنگ سینٹرل ایکسس کو عالمی ورثے کے طور پر منظور کیا گیا‘ یہ پاکستان اور چین کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن کے مؤثر نفاذ کے لیے پختہ عزم کا مظہر ہے جبکہ یونیسکو نے پاکستان میں واقع مزید متعدد تاریخی مقامات کو عالمی ورثہ کی حیثیت دینے کیلئے زیر غور فہرست میں شامل کیا ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں پاکستان کے تین مقامات کو شامل کرنے کی خاص اہمیت ہے کیونکہ یونیسکو جب کسی مقام کو اپنی فہرست میں شامل کر کے اس کی دیکھ بھال کرتا ہے تو وہ مقام دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ بھارت کی سر توڑ کوششوں کے باوجود پاکستان کی بہتر سفارتکاری اور دوست ممالک کے تعاون کی بدولت یہ اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ دیگر شعبوں میں بھی ایسی ہی سفارتکاری کی ضرورت ہے۔بہتر سفارتکاری کسی ملک کی کامیابی میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے ممالک اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بناتے ہیں۔