تحریک انصاف نو مئی کے بعد جس بھنور میں پھنسی تھی‘ آج بھی اس سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ڈھونڈ پائی۔ ظاہر ہے جب تک بھنور میں رہے گی مشکلات کا شکار رہے گی۔ کشتی کو بھنور میں پھنسے زیادہ وقت گزر جائے تو اس کی تباہی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں اور اس کے مسافر عافیت کے ساتھ کنارے پر پہنچنے تک خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ماہر ملاح طاقت سے زیادہ اپنی عقل اور تجربے کو بروئے کار لاتا ہے اور بھنور میں پھنسی کشتی کو محفوظ طریقے سے کنارے لگاتا ہے لیکن جب یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کشتی کا ملاح کون ہے تو ڈوبنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ تحریک انصاف کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
بانی پی ٹی آئی جب سے گرفتار ہوئے ہیں پارٹی بھنور میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ بیرسٹر گوہر خان کو پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا مگر بظاہر ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں‘ انہیں ہر معاملے کے لیے جیل میں بانی پی ٹی آئی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ بیرسٹر گوہر خان پر پارٹی کے دیگر رہنما بھی اعتماد کے لیے تیار ہیں نہ ہی کارکنان‘ یوں مشکل وقت میں پی ٹی آئی کو جس قیادت کی ضرورت تھی وہ سامنے نہیں آ سکی۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو دیکھیں تو جب ان پارٹیوں پر مشکل وقت آیا تو متبادل قیادت سامنے آئی اور پارٹی کو سنبھالا۔
سیاسی جماعت ایک ندی کی طرح ہوتی ہے جس کے منبع میں نظریات کی طاقت ہوتی ہے اور اس کے بہاؤ میں کارکنوں کا جوش۔ جب یہ ندی اپنے راستے پر رواں دواں ہوتی ہے تو سرسبز و شاداب وادیوں کو سیراب کرتی ہے لیکن جب اس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں یا اس کا رُخ تبدل ہوجاتا ہے تو یہ اپنی طاقت کھو بیٹھتی ہے۔ جب پارٹی کی باگ ڈور متبادل قیادت کے ہاتھوں میں آ جائے اور وہ اسے تباہی کی راہ پر ڈال دے تو سیاسی جماعت کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ کئی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی بنیادوں کو متزلزل کرنے والی قیادت کی وجہ سے اپنی شناخت کھو دی۔ جب ایک قائد‘ جس نے پارٹی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہو‘ پارٹی کے نظریے کو پروان چڑھایا ہو اور کارکنوں میں جذبہ پیدا کیا ہو‘ پارٹی سے کنارہ کش ہو جائے تو اس کی جگہ لینے والوں کے لیے پارٹی کی قیادت ایک بڑا چیلنج ہوتی ہے۔ اگر اس قیادت میں اپنے قائد جیسی صلاحیتیں نہ ہوں تو پارٹی کی بنیادیں کمزور ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں پارٹی گروہ بندیوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ہر گروہ اپنے مفاد کی بات کرنے لگتا ہے اور پارٹی کے مجموعی مفاد نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ جب نئی قیادت پارٹی کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو وہ اکثر اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر یہ تبدیلیاں پارٹی کے اصل نظریے سے متصادم ہوں تو پارٹی کی روح کو نقصان پہنچتا ہے۔ پرانے کارکن‘ جو پارٹی کے نظریے کے پرستار ہوتے ہیں‘ پارٹی سے دوری اختیار کر لیتے ہیں اور نئی قیادت کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں نظریات پر زندہ رہتی ہیں لیکن پی ٹی آئی نظریات کے بجائے فردِ واحد پر قائم ہے‘ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی متبادل قیادت کے پاس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے عمران خان کا نام استعمال کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ پی ٹی آئی میں متبادل قیادت سامنے کیوں نہیں آ سکی‘ اس کا ذمہ دار کون ہے اور پارٹی کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ یہ سوالات بہت اہم ہیں مگرکسی پارٹی رہنما کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس بارے پوچھ سکے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بانی پی ٹی آئی خود نہیں چاہتے کہ ان کی موجودگی میں متبادل قیادت سامنے آئے۔مگر اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ جب پارٹی کو مشکلات نے گھیرا تو پارٹی کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ کارکنان عمران خان کے علاوہ کسی پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب عمران خان گرفتار ہو ئے اور پارٹی کومتبادل قیادت کی ضرورت تھی تو یہ اہم فیصلہ نہ ہو سکا‘ حتیٰ کہ جب عام انتخابات کے بعد جے یو آئی اور پی ٹی آئی احتجاجی تحریک میں ایک ساتھ چلنے کیلئے آمادہ ہوئیں تو مولانا فضل الرحمن نے بھی کئی ملاقاتوں کے بعد شکوہ کیا کہ جو لوگ ان سے ملنے آتے ہیں‘ ان کے پاس قوتِ فیصلہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے اہم اتحادی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو حکومت سے مذاکرات کیلئے مکمل اختیارات دینے کی باتیں سامنے آئیں لیکن کئی جگہوں پر ثابت ہوا کہ وہ بھی بے اختیار ہیں۔
ان حالات میں پی ٹی آئی کی وہ قیادت جو جیل سے باہر ہے اور پارٹی کو سنبھال رہی ہے‘ اس کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ وہ کون سا بیانیہ اختیار کرے‘ مزاحمتی یا مفاہمتی؟ شاید بیانیے کے تعین کیلئے ہی اُنہیں جلسے کا سہارا لینا پڑا ہے۔ چونکہ ان سطور کو پی ٹی آئی کے جلسے سے پہلے تحریر کیا گیا ہے اس لیے ہم پی ٹی آئی کے نئے بیانیے کو زیر بحث نہیں لا رہے۔ البتہ جلسے سے پہلے کے آثار بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کو ایک طرف قیادت کے بحران کا سامنا ہے تو دوسری طرف متبادل قیادت میں پارٹی نظریات دم توڑتے نظر آ رہے ہیں کہ صوبائی حکومت میں کرپشن اور بدانتظامی کی نشاندہی پر بانی پی ٹی آئی کو خود نوٹس لینا پڑا۔ عمران خان نے خیبرپختونخوا حکومت کے مالی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ اقدام صوبائی وزیر شکیل خان کی جانب سے صوبے میں بدعنوانی کے حوالے سے خدشات کے اظہار کے بعد سامنے آیا ہے۔ کمیٹی میں سابق گورنر شاہ فرمان‘ قاضی انور اور اینٹی کرپشن ایڈوائزر مصدق عباسی شامل ہیں۔ کمیٹی صوبائی حکومت کے معاملات کا جائزہ لے کر عمران خان کو تفصیلی رپورٹ فراہم کرے گی۔ کمیٹی کے قیام کی تصدیق کرتے ہوئے شاہ فرمان کا کہنا ہے کہ تین رکنی کمیٹی بانی پی ٹی آئی کی رہنمائی میں قائم کی گئی ہے اور ہم ان کی طرف سے جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کریں گے۔ یہ کمیٹی جب رپورٹ پیش کرے گی تو خیبرپختونخوا کابینہ میں شامل کئی نام سامنے آئیں گے‘ جنہیں مخفی نہیں رکھا جا سکے گا۔ پی ٹی آئی کے سامنے پارٹی کے اندرونی مسائل اور خیبرپختونخوا حکومت کی کرپشن کا دباؤ ہو گا۔ اس پر مستزاد خیبرپختونخوا حکومت کی ناقص کارکردگی۔ صوبے کے عوام آنے والے وقت میں اپنے حقوق بارے سوال کریں گے۔ انہیں جلسے جلوسوں سے زیادہ دیر تک مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو حقوق دیے اور معیارِ زندگی بلند کیے بغیر عوامی تحریک کو شروع کرنا آسان نہیں ہو گا۔ مزاحمت کے نام پر نو مئی جیسی غلطی پی ٹی آئی کیلئے آخری تنکا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
پچھلے ایک سال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نہ کھل کر احتجاج کا راستہ اختیار کر سکی ہے اور نہ ہی ایوان کے اندر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان دھیرے دھیرے حالات کا ادراک کرنے لگے ہیں اس لیے سخت شرائط کے بجائے اسی پر اکتفا کیا ہے کہ ''پی ٹی آئی کی اکثریت تسلیم کرنے تک تصفیہ مشکل ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ وہ تصفیے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ پی ٹی آئی کی اکثریت تسلیم کی جائے۔ اگر ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جائے تو بھی حکومت کو خطرہ درپیش نہیں کیونکہ حکومت کے لیے درکار ووٹ پورے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اگر واقعی تصفیہ چاہتے ہیں تو انہیں قدم اٹھانا ہو گا کیونکہ اب تک تصفیے سے وہ خود ہی انکاری تھے۔