پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد کے علاقے سنگجانی میں جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ مگر کیا اس جلسے سے مطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل ہوئے؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔ پی ٹی آئی کا وفاقی دارالحکومت میں جلسے کا مقصد یہ تھا کہ خان صاحب کی محبت میں لوگوں کا جم غفیر وہاں جمع ہو جائے گا جنہیں نظر انداز کرنا حکومت اور مقتدرہ کیلئے آسان نہ ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان میں پی ٹی آئی کے کامیاب جلسے کے بعد تبدیلی کا عمل شروع ہو ا اسی طرح اسلام آباد جلسے کے بعد پارٹی کے دن پھر جائیں گے۔ منصوبے کے برعکس سنگجانی جلسہ تعداد کے اعتبار سے ایک ناکام شو ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی قیادت خود بھی پریشان ہے کہ اس قدر کم لوگ کیوں آئے؟ اب جبکہ جلسہ ہو چکا ہے تو شرکا کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی پختونخوا قیادت کا دعویٰ ہے کہ جتنے لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے اس سے کہیں زیادہ لوگ راستے بند ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر پھنسے رہ گئے۔ اسد قیصر اور دیگر رہنما اپنے قافلوں کے ساتھ جلسہ گاہ نہیں پہنچ سکے‘ تو اس میں رکاوٹوں سے علاوہ خود ان کا اپنا قصور بھی ہے۔ جلسہ والی رات اسد قیصر اور محمود اچکزئی کو ایک پنج ستارہ ہوٹل میں دیکھا تو ہم چونک کر رہ گئے کہ انہیں تو اس وقت جلسہ گاہ میں ہونا چاہیے‘ یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ پی ٹی آئی کو جلسہ کیلئے این او سی جاری ہونے سے پہلے اسلام آباد انتظامیہ اور پی ٹی آئی قیادت میں طے پایا تھا کہ جلسہ سہ پہر چار سے شام سات بجے کے درمیان ہو گا۔اس معاہدے کی پاسداری پی ٹی آئی نے کرنی تھی۔ اسد قیصر تو چلیں جلسہ گاہ نہ پہنچ سکے مگر اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور جب پشاور سے روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ تقریباً تین سو گاڑیوں کا قافلہ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ 1200سے 1500 لوگ ہوں گے۔ جلسے کی کامیابی کیلئے اس قافلے پر انحصار کیا جا رہا تھا کیونکہ علی امین گنڈا پور نے جلسے کے حوالے سے کسی اور پر اعتماد کرنے کے بجائے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے لیکن جب ان کا قافلہ روانہ ہوا تو چند ہزار افراد بھی ہمراہ نہیں تھے۔
جہاں تک جلسے میں بدنظمی کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ جلسے میں خواتین کو مدعو کیا گیا تھا تو پارٹی کی جانب سے سکیورٹی کا بندوبست بھی کیا جانا چاہیے تھا ۔ اس ضمن میں ہمیشہ کی طرح کوتاہی برتی گئی اور مردوں کی بدتمیزی سے تنگ آکر خواتین نے جلسہ گاہ سے واپس جانا مناسب سمجھا۔ پی ٹی آئی قیادت اس معاملے پر خاموش ہے۔ جلسے کی تیاریوں سے لے کر اختتام تک پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور بدنظمی کے مشاہدے بھی سامنے آئے۔ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے رہنماؤں جنید اکبر اور شکیل خان کو صوابی میں پی ٹی آئی اجتماع میں مدعو نہیں کیا گیا۔ جلسے سے متعلق وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں بھی دونوں اراکینِ اسمبلی شریک نہیں تھے۔ رکنِ اسمبلی عاطف خان بھی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔
جلسے کی ناکامی اپنی جگہ مگر کوئی بھی سیاسی جماعت جلسہ کرنا چاہے اور جب اسے جلسے کا این او سی مل جائے تو راستوں کو بند کرنا درست نہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ نے جلسے کے روز درجنوں جگہوں سے راستے بند کر دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کی کوشش تھی کہ جلسے میں کم سے کم لوگ شریک ہو سکیں‘ اب اس روایت کو ختم ہونا چاہیے۔ جب کسی جلسے کا این او سی جاری ہوتا ہے تو انتظامیہ حرکت میں آتی ہے‘ حفاظتی اقدامات درحقیقت انتظامیہ کے ذمے ہوتے ہیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔
امنِ عامہ کو برقرار رکھنے کیلئے انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ جلسے کے طے شدہ روٹس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے جبکہ پی ٹی آئی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ کارکنوں کو جلسے کے روٹس سے آگاہ کرتی مگر اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ روٹس کی خلاف ورزی پر جب پولیس اہلکاروں نے پی ٹی آئی کارکنوں کو روکنا چاہا تو کارکن مشتعل ہو گئے۔ پولیس اور جلسے کے شرکا آمنے سامنے آئے تو کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا جس کے بعد پولیس اور جلسے کے شرکا کے درمیان ایک تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان کچھ دیر تک جھڑپیں جاری رہیں۔ شرکا کے پتھراؤ سے ایس ایس پی سیف سٹی سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہو ئے حتیٰ کہ پولیس کی مدد کیلئے ایف سی کو طلب کرنا پڑا۔ پولیس اور شرکا کے درمیان تصادم کی بنیادی وجہ ہجوم کی نفسیات تھی۔ افراد جب گروہ کی شکل میں جمع ہوتے ہیں تو ایسے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں جو وہ عام طور پر اکیلے ہوتے ہوئے نہیں کرتے کیونکہ ہجوم میں پہچانے جانے یا پکڑے جانے کا خوف کم ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی ذہنیت مثبت اور منفی دونوں نتائج کی طرف لے جا سکتی ہے لیکن اکثر یہ منفی واقعات جیسا کہ فسادات‘ لوٹ مار اور تشدد سے وابستہ ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے ایسے وقت تشدد کا مظاہرہ کیا گیا ہے جب پارٹی نو مئی کے واقعات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور پارٹی کے قائد پابندِ سلاسل ہیں۔ پی ٹی آئی کو یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ اس کی جدوجہد پُرامن ہے اور اس کی قیادت و کارکن تشدد پر یقین نہیں رکھتے لیکن انہوں نے جلسے میں اس کے برعکس رویہ اختیار کرکے ایک بہترین موقع ضائع کر دیا ۔ ذرا تصور کریں کہ پی ٹی آئی دوسری کسی جگہ پر جلسہ اور این او سی کیلئے درخواست دے گی تو کیا اسے آسانی سے جلسے کی اجازت مل جائے گی؟
پی ٹی آئی کے جلسے میں دوسری بدنظمی اس وقت دیکھنے کو ملی جب انتظامیہ نے انہیں یاد دہانی کرائی کہ معاہدے کے مطابق طے شدہ وقت پورا ہو چکا ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ جلسوں میں وقت کی پابندی کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے اور آج سے پہلے کتنے جلسوں میں اس پر عمل کیا گیا؟ مگر چونکہ وقت کی پابندی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی اس لیے ایس ایچ او سنگجانی نے دو بار جا کر جلسہ منتظمین کو جلسے کا وقت ختم ہونے کا بتایا لیکن انتظامیہ کی جانب سے دی گئی مہلت ختم ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کا جلسہ جاری رہا۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کو مثبت رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا مگر اس ضمن میں انتظامیہ سے تعاون نہیں کیا گیا۔ اس پر مستزاد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور پی ٹی آئی قیادت کی تقاریر۔ علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر میں بانی پی ٹی آئی کو ایک سے دو ہفتوں میں جیل سے چھڑانے کی دھمکی دی۔ اگر وہ طاقت کے زور پر یہ کام کر سکتے ہیں تو قانونی تقاضوں اور ریاستی رِٹ کے کیا معنی رہ جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر وہ طاقت کے زور پر خان صاحب کو چھڑا سکتے ہیں تو اتنی تاخیر کیوں کی؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ پی ٹی آئی کے خیرخواہ ہیں یا پارٹی کیلئے مزید مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ جیل سے باہر پی ٹی آئی قیادت کیلئے سوچنے کا مقام یہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے جس جلسے میں صوبائی وسائل کو جھونک دیا اس سے حاصل کیا ہوا؟ کیا خان صاحب کو کوئی ریلیف مل سکا یا الٹا پارٹی کیلئے نئے جلسے کی اجازت لینے کی راہ میں مشکلات حائل ہوئی ہیں؟