حکومت ان دنوں آئینی اصلاحاتی پیکیج کی منظوری کے لیے کوشاں ہے۔ دعووں کے برعکس حکومت کو نمبرز پورے کرنے میں دشواری کا سامنا ہے‘ اگر نمبر پورے ہوتے تو یہ مرحلہ کب کا مکمل ہو چکا ہوتا۔ ایوان کے اندر پوزیشن کچھ اس طرح بن رہی ہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 224 اراکین کی حمایت حاصل ہونی چاہیے‘ لیکن حکومت کے اتحادیوں کے ووٹ ملا کر کل اراکین کی تعداد 214 بنتی ہے۔ ایوان میں مسلم لیگ (ن) کی نشستوں کی تعداد 111‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی 69‘ ایم کیو ایم کی 22 جبکہ (ق) لیگ کی پانچ‘ آئی پی پی کی چار‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ بی اے پی اور پاکستان مسلم لیگ (ضیا) کی ایک ایک نشست ہے۔ حکومت کو دو تہائی اکثریت ثابت کرنے کیلئے مزید 10 اراکین کی حمایت درکار ہے جبکہ ایوان میں جے یو آئی (ایف) کے آٹھ اراکین ہیں۔ اگر جے یو آئی(ف) حکومت کی حمایت کے لیے مان جاتی ہے تو مزید دو اراکین کی حمایت حاصل کرنا حکومت کے لیے آسان ہو جائے گا۔ اسی طرح سینیٹ میں بھی حکومت کے ووٹ کم ہیں۔
حکومت اتوار کی شب آئینی ترمیم کا عمل مکمل کرنا چاہتی تھی مگر 50 سے زائد شقوں کے آئینی ترمیمی پیکیج کے مسودے کو منظر عام پر نہیں لایا گیا‘ حتیٰ کہ جن جماعتوں کا حکومت کو تعاون درکار ہے‘ انہیں بھی شکوہ ہے کہ انہیں مسودہ نہیں دکھایا گیا۔ یوں حکومت کے لیے اس منصوبے کو اتوار کی شب عملی شکل دینا مشکل ہو گیا کیونکہ مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم میں ترپ کا پتا جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے‘ جنہوں نے آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس موقع پر مدارس کی رجسٹریشن اور دینی اسناد کے دیرینہ معاملے کو حل کرانا چاہتے ہیں‘ تاہم انہوں نے فوری حمایت کے بجائے مسودے کا جائزہ لے کرحتمی فیصلے کا عندیہ دیا ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 63 میں منحرف رکن کے ووٹ سے متعلق ترمیم اور بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘ تاہم بلوچستان اسمبلی کی نشستوں سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔مجوزہ آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں اضافہ نہیں کیا جائے گاتاہم ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر تین سال بڑھانے کی ترمیم مجوزہ پیکیج کا حصہ ہے۔ آئندہ چیف جسٹس کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے گا جس کے تحت سینئر ترین پانچ ججز میں سے کوئی ایک آئندہ چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔ صدرِ مملکت وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کا تقرر کریں گے جبکہ ججز کے لیے دہری شہریت رکھنے پر پابندی لگانے کی بھی تجویز آئینی پیکیج میں شامل ہے۔ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی آئینی ترمیم بھی مسودے کا حصہ ہے۔ آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کی دفعہ 184(3)میں ترمیم کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔ ججز کا تقرر کرنے والی باڈی کی تشکیلِ نو بھی مسودے میں شامل ہے۔ جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کر کے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز مسودے کا حصہ ہے۔ ایڈہاک ججز کی تقرری کی دفعہ 181 میں ترمیم اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے میں شامل ہے۔ آئینی عدالت میں آئین کی دفعات 184‘ 185 اور 186 سے متعلق مقدمات کی سماعت ہو گی۔ آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل بھی آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔
جمہوری نظام میں ایوان کی سیاست اور ٹائمنگ کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس سے بخوبی آگاہ ہیں اور ہمیشہ سوچ سمجھ کر اپنے کارڈ کھیلتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں جے یو آئی(ایف) کی آٹھ نشستیں ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں کی مجبوری بنی ہوئی ہے۔پی ٹی آئی کے پاس ایوان میں ان سے زیادہ نشستیں ہیں مگر چونکہ وہ ایوان کی سیاست کرنا نہیں جانتی اس لیے اکثریت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہاؤس کو مرکزی ادارے کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہاں قانون سازی کا عمل انجام پاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون ساز اجلاس منعقد ہوتے ہیں‘ جہاں سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیاں پیش کرتی ہیں اور عوامی مفاد کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہی دراصل عوام کی آواز کی ترجمان ہے اور ان کی خواہشات کو قانون کی شکل میں ڈھالنے کا کام انجام دیتی ہے۔
پاکستان کے آئین میں آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی شرط اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ آئین میں کسی بھی اہم تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ میں وسیع اتفاقِ رائے موجود ہو۔ یہ شرط اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ آئین میں کوئی بھی تبدیلی عوامی مفاد میں اور ملک کی بہتری کے لیے ہو۔ دو تہائی اکثریت کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود اراکین کی کل تعداد کا دو تہائی حصہ کسی ترمیم کے حق میں ووٹ دے۔ آئین میں ترمیم کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔ آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک جامع اور تفصیلی عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل میں ماہرینِ قانون‘ سیاسی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کی شرکت ضروری ہوتی ہے۔ آئینی ترمیم کا مسودہ ملک کے مستقبل کے لیے ایک اہم دستاویز ہوتا ہے اور اس کی تیاری میں تمام ممکنہ عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں بالعموم آئینی مسودہ حکومت ہی تیار کرتی ہے لیکن درست رویہ یہ ہے کہ آئینی ترمیم یا قانون سازی کے عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں اس مسودے پر بحث ہو۔ آخر میں اس مسودے پر ووٹنگ کرائی جائے۔ پارلیمنٹ میں کسی سیاسی جماعت کی تعداد اس کی سیاسی طاقت کا ایک اہم عنصر ہوتی ہے۔ یہ تعداد اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں کتنی مؤثر ہے اور کس حد تک اپنی پالیسیاں نافذ کرا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت یا جماعتوں کا اتحاد نئے قوانین بنانے اور موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی کی شرط اس لیے بھی رکھی گئی ہے کہ قانون سازی کا مقصد صرف قوانین بنانا نہیں بلکہ ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوتا ہے جو عوام کی بہتری اور ملک کی ترقی کے لیے کام کرے۔
حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے ہوم ورک کیے بغیر کس کے اشارے پر اتنا بڑا قدم اٹھانے کی کوشش کی؟ مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ پی ٹی آئی کو بھی ایسے ہی تحفظات ہیں۔ مجوزہ آئینی ترمیمی پیکیج کو آسانی سے منظور کرایا جا سکتا تھا‘ اگر عجلت سے کام نہ لیا جاتا اور مسودے کو مخفی نہ رکھا جاتا۔ ڈیڈ لاک سامنے آنے کے بعد سیاسی و آئینی معاملات پر پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی‘ اگر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کام پہلے کیا جاتا تو غیرمتوقع مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا حصہ بننے اور اجلاس میں شمولیت پرآمادہ نہ تھی مگر مولانا فضل الرحمن نے انہیں قائل کیا اور اجلاس میں شرکت کے لیے پی ٹی آئی راضی ہوگئی۔ مولانا کو یہ ذمہ داری بھی تفویض کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی مجوزہ آئینی ترمیمی پیکیج کی حمایت کرے۔ فی الحال آئینی ترمیم کا عمل غیر معینہ مدت تک کے لیے مؤخر ہو گیا ہے مگر حالات نے ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کو سیاسی جماعتوں کی امامت کا کام سونپ دیا ہے۔