تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں دو دن گزارنے کے بعد ہم ازبکستان میں موجود ہیں جہاں کے پارلیمانی انتخابات میں ہمیں بطور مبصر مدعو کیا گیا ہے۔ ازبکستان میں ترقی کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔ جب بھی وسطی ایشیائی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ یہ ازبکستان میں ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں‘ اس قبل یہاں صدارتی انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ پہلے پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ جب یہ سطور شائع ہوں گی تو یہاں ووٹنگ کا عمل شروع ہو چکا ہو گا۔ 2016ء میں یہاں ہونے والی انتخابی اصلاحات کے بعد انتخابات کا عمل شفاف اور آسان ہو چکا ہے۔ یہاں ای سیلو (E-saylov) نامی جدید معلومات کا نظام موجود ہے۔Saylov ازبک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''انتخاب‘‘۔ ای سیلو کا مطلب ہوا الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام۔ یہ نظام مختلف انتخابی اداروں‘ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں‘ مبصرین اور میڈیا کے درمیان تقریباً 60مختلف معاملات کو مکمل طور پر برقی شکل میں ممکن بناتا ہے۔ اس نظام کو دیگر برقی پلیٹ فارمز کے ساتھ مربوط کر کے انتخابی عمل کے بہت سے مراحل کوخودکار بنا دیا گیا ہے۔ یہ نظام انتخابی عمل میں شریک تقریباً چار لاکھ افراد کا ایک وسیع ڈیٹا بیس تشکیل دیتا ہے جس میں الیکشن کمیشن کے اراکین‘ امیدوار اور مبصرین شامل ہیں۔ تقریباً 32ہزار افراد اس معلومات کے نظام کو پیشہ ورانہ طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کے لیے E-Saylov کا نظام انتخابات سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں کئی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ بالخصوص یہ ووٹروں اور پولنگ سٹیشنز کے بارے میں اعداد و شمار‘ امیدواروں کے بارے میں معلومات حتیٰ کہ امیدواروں کی سوانح حیات اور ان کے آبائی علاقوں کے بارے میں جاننے کیلئے بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کم از کم چار ماہ پہلے رجسٹرڈ ہونا ہوتا ہے اور انہیں کم از کم 40ہزار افراد دستخط جمع کرانے ہوتے ہیں جو ان کی شرکت کی حمایت کرتے ہیں۔ انتخابی نظام میں ان نمایاں تبدیلیوں کا مقصد انتخابات کو شفاف‘ منصفانہ اور عوام دوست بنانا ہے۔ ان تبدیلیوں میں سب سے اہم قدم الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام ہے۔ اس نظام میں ووٹروں کو کاغذی ووٹنگ کے بجائے الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ یہ مشینیں ووٹوں کو ریکارڈ کرتی اور انہیں مرکزی سرور تک بھیج دیتی ہیں۔ اس سے ووٹنگ کا عمل تیز ہوتا ہے اور نتائج کا اعلان بھی جلدی کیا جا سکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی مشینوں کو سخت سکیورٹی میں رکھا گیا ہے اور ان پر ہونے والی تمام سرگرمیاں ریکارڈ ہوتی ہیں۔ ووٹنگ کے عمل کی نگرانی کے لیے مبصرین بھی موجود ہیں۔
کئی ممالک کے دوروں کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ اُن ممالک نے مختصر عرصے میں اپنے ہاں اصلاحات کا عمل شروع کیا اور اگلے کچھ ہی برسوں میں اس کا نفاذ بھی ہو گیا۔ پاکستان میں صورتحال مگر اس کے برعکس ہے کہ یہاں کسی اقدام پر اتفاقِ رائے ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 2016ء میں ازبکستان نے نئی شروعات کی جس کا مقصد ایک ایسا ملک بنانا تھا جہاں انسان کی قدر سب سے زیادہ ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے حقوق کو خاص اہمیت دی گئی۔ ازبکستان کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت کو عوام کی خدمت کرنی چاہیے نہ کہ عوام کو حکومت کی۔ اس نئی سوچ کے تحت ازبکستان نے اپنے قوانین میں کئی تبدیلیاں کیں۔ 2016ء میں ازبکستان کے صدر شوکت مرزا یوف نے ایک ایسا انتخابی قانون بنانے کا عہد کیا جس سے شہریوں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے میں آسانی ہو۔ اس مقصد کیلئے قوانین‘ ضوابط اور مرکزی الیکشن کمیشن کے دستاویزات کو یکجا کر کے جدید بنایا گیا۔ یہ انتخابی قانون 26جون 2019ء کو نافذ ہوا۔ اس قانون کا ایک اہم مقصد عالمی معیارات اور ترقی یافتہ ممالک کے بہترین جمہوری طریقوں کے مطابق ووٹ کے حق کی عالمگیریت‘ برابر ووٹنگ‘ براہِ راست اور خفیہ ووٹنگ اور انتخابات کی آزادی جیسے بنیادی اصولوں کو مضبوط کرنا تھا۔ اسکے علاوہ ازبکستان کے ووٹروں کی ایک الیکٹرانک فہرست بھی متعارف کرائی گئی‘ اس الیکٹرانک فہرست کے علاوہ ووٹروں کی کوئی فہرست موجود ہی نہیں ہے۔
ازبکستان وسطی ایشیا کا ایک تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے خوبصورت ملک ہے۔ یہ وسطی ایشیا کے قلب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں قازقستان‘ مشرق میں کرغزستان‘ جنوب میں تاجکستان اور افغانستان جبکہ مغرب میں ترکمانستان واقع ہیں۔ اس طرح ازبکستان ایک اہم جغرافیائی مقام پر واقع ہے جس نے اسے تاریخی طور پر تجارتی راستوں کا ایک اہم مرکز بنایا ہے۔ازبکستان کی تاریخ قدیم تہذیبوں سے عبارت ہے۔ازبکستان کی ثقافت ایک دلکش امتزاج ہے جس میں ترک‘ ایرانی اور اسلامی اثرات شامل ہیں۔ اس کی تاریخی مساجد‘ مدارس اور دیگر تاریخی عمارتیں اس کے شاندار ثقافتی ورثے کی گواہی دیتی ہیں۔ بخارا‘ سمر قند اور خوارزم اس خطے کے اہم ثقافتی مراکز ہیں جنہوں نے سائنس‘ فلسفہ‘ ادب اور فنونِ لطیفہ کے میدان میں نمایاں کام کیا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ازبکستان نے اقتصادی ترقی کے راستے پر قدم رکھا ہے۔ ملک کی معیشت زراعت‘ صنعت اور قدرتی وسائل پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سیاحت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ تاریخی ورثے‘ خوبصورت مناظر اور ثقافتی تنوع کے باعث ازبکستان سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن رہا ہے۔
وسطی ایشیائی ممالک پاکستان کے بہت قریب واقع ہیں۔ تاجکستان جہاز پر پونے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر ازبکستان کی براہِ راست فلائٹ ہو تو وہ بھی دو گھنٹے سے کم ہوتی ہے۔ پاکستان سے وسطی ایشیائی ممالک تک براہِ راست زمینی راستہ موجود نہیں ہے‘ تاہم کچھ ممکنہ راستے ہیں جن کا استعمال اس سفر کیلئے کیا جا سکتا ہے۔ پہلا روٹ براستہ افغانستان ہے۔ یہ روٹ کچھ یوں بنتا ہے کہ پاکستان سے افغانستان‘ تاجکستان‘ کرغزستان‘ قازقستان۔ یہ راستہ تاریخی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے‘ تب یہ شاہراہ ریشم کا حصہ تھا۔ اب افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اس راستے سے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ دوسرا روٹ براستہ ایران ہے۔ یہ روٹ کچھ یوں بنتا ہے پاکستان سے ایران‘ ترکمانستان‘ ازبکستان‘ قازقستان۔ یہ راستہ نسبتاً محفوظ ہے لیکن اس میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ تیسرا روٹ براستہ چین ہے لیکن وہ کافی طویل ہے۔
خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی سے ازبکستان کے پاکستان میں نئے سفیر علی شیر تختییو کی خوشگوار ملاقات میں معاشی و تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق اہم پیش رفت ہے۔ ازبکستان کی حکومت اور سینٹرل الیکشن کمیشن کی طرف سے پاکستان سے سرکاری وفد کو ازبکستان میں پہلے پارلیمانی انتخابات میں بطور عالمی مبصر مدعو کیا گیا ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں تین رکنی وفد ازبکستان روانہ ہوچکا ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک میں ازبکستان واحد ملک ہے جس کیساتھ پاکستان کے سٹریٹجک تعلقات ہیں۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان بے شمار تجارتی مواقع موجود ہیں۔ مذہبی سیاحت کیلئے بھی ازبکستان میں اہم مقامات موجود ہیں۔
ازبکستان میں قیام کے دوران ہم نے دو باتوں کو محسوس کیا: ایک آئینی و اصلاحاتی عمل‘ دوسرا یہاں کے لوگ اپنے حکمرانوں سے بہت خوش ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں آئینی پیکیج پر اتفاقِ رائے کیلئے جو ہنگامہ برپا ہوا وہ محتاجِ بیان نہیں۔ قومیں اصلاحات سے ہی آگے بڑھتی ہیں۔ پاکستانی عوام کے چہروں پر حقیقی خوشی لانے کیلئے ہماری حکومت کو بھی اصلاحات سمیت ہر وہ قدم اٹھانا ہو گا جو ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔