"RS" (space) message & send to 7575

بھارتی جارحیت کے محدود امکانات

پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے تشکیل دیا گیا بیانیہ زمین بوس ہو چکا ہے۔ بھارت میڈیا اور سفارتی سطح پر جنگ ہار چکا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی طرف سے بروقت اور مؤثر جواب کی بھارت کو توقع نہیں تھی۔ بھارت ماضی میں ایسے ہی ڈراموں کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتا رہا ہے مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ بند کمرے میں ایک بیانیہ تشکیل دے کر آسانی سے اپنی مرضی کے فوائد حاصل کیے جا سکیں۔ موجودہ دور میں محض الزام تراشی اور بے بنیاد کہانیاں سفارتی اور ابلاغی محاذ پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔ اگرچہ نئی دہلی نے ابتدائی طور پر اس واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی سرتوڑ کوششیں کیں تاہم سفارتی حلقوں نے بھارتی الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ دورِ حاضر میں ریاستیں معلومات تک وسیع رسائی رکھتی ہیں اور کسی بھی دعوے کی آزادانہ تصدیق کرنا ماضی کی طرح مشکل نہیں رہا۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو عالمی میڈیا نے نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ظاہر ہے پاکستانی میڈیا نے تو بھارتی پروپیگنڈا کا جواب دینا ہی تھا‘ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی غیر جانبدارانہ اور حقائق پر مبنی صحافت کو ترجیح دی‘ جس کے نتیجے میں بھارتی بیانیے کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی بھارت توقع کر رہا تھا۔ یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب عام افراد کسی بھی حکومتی یا ریاستی بیانیے پر بلاتحقیق یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی موجودگی نے معلومات کے یکطرفہ بہاؤ کو ختم کر دیا ہے۔ اب عام شہری بھی متعدد ذرائع سے اصل حقائق تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور کسی بھی بیانیے کا تنقیدی جائزہ لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پہلگام واقعے میں بھی یہی صورتحال دیکھنے میں آئی کہ بھارتی بیانیے کے کمزور پہلو جلد ہی آ شکار ہو گئے اور اسے نہ صرف سفارتی سطح پر کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی بلکہ عالمی میڈیا میں بھی اسے سوالات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں شفافیت‘ معتبر شواہد اور منطقی استدلال ہی کسی ملک کے مؤقف کو بین الاقوامی سطح پر استحکام بخش سکتے ہیں اور محض کسی دوسرے ملک کے خلاف پروپیگنڈا کے ذریعے دیرپا کامیابی حاصل کرنا اب پہلے کی نسبت کہیں زیادہ دشوار ہو چکا ہے۔
بھارت کے بعض باشعور حلقوں کی یہ رائے کہ نئی دہلی پہلگام واقعے کے تناظر میں ابلاغی اور سفارتی محاذ پر متوقع نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا‘ معقول وجوہات پر مبنی ہے۔ ان دانشوروں کا استدلال اس نکتے پر ہے کہ بھارت نے جس عجلت میں پاکستان پر اس واقعے کا الزام لگایا‘ اسکے حق میں کوئی ٹھوس اور قابلِ بھروسا ثبوت پیش نہیں کر سکا۔ بین الاقوامی سطح پر محض قیاس آرائیوں اور غیر مصدقہ دعوؤں کی بنیاد پر کسی ریاست کو دہشت گردی میں ملوث ٹھہرانا قابلِ قبول نہیں ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب تقاضا کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک پر سنگین الزامات عائد کرنے سے قبل ناقابلِ تردید شواہد مہیا کیے جائیں‘ جس میں بھارت ناکام رہا۔ کئی بھارتی مفکرین اور تجزیہ کاروں نے بھی اپنی حکومت کی جانب سے جلد بازی میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے پر تنقید کی ہے‘ جس سے یہ عیاں ہے کہ باشعور طبقہ حقائق کی غیرجانبدارانہ جانچ پڑتال کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات بھی اس رائے کو تقویت بخشتے ہیں کہ محض الزام تراشی سے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا مشکل ہے‘ اور موجودہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ باخبر اور تنقیدی نظر رکھنے والی ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ کچھ باشعور بھارتی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کا ملک اس معاملے میں ابلاغی اور سفارتی محاذ پر مطلوبہ پوزیشن حاصل نہیں کر سکا۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پہلگام واقعے میں عجلت کا مظاہرہ کرکے بھارت نے کچھ حاصل کرنے کے بجائے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ سکھ رہنماؤں کی جانب سے کھل کر پاکستان کی حمایت اور کشمیریوں کا بھارتی مؤقف کے خلاف صف آرا ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کے ردِعمل اور بیانیے پر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ بھارت کے اندر بھی سوالات اٹھ ر ہے ہیں۔ سکھ رہنماؤں کی پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اہم پیش رفت ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارتی حکومت کا بیانیہ اپنی اقلیتوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ایک اہم اقلیتی گروہ کھل کر دوسرے ملک کی حمایت کر رہا ہے تو یہ بھارت کے اندرونی اتحاد اور ہم آہنگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب کشمیریوں کا بھارتی مؤقف کے خلاف کھڑا ہونا کوئی نئی بات نہیں‘ لیکن پہلگام واقعے کے بعد ان کا ردِعمل مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اگر کشمیری عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس واقعہ کو ان کے خلاف کسی خاص مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے یا حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے تو ان کی ناراضگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس سے خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
چین‘ ترکیہ‘ قطر‘ سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی حمایت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پہلگام واقعے کے تناظر میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا بیانیہ اور سفارتی کوششیں کہیں زیادہ مؤثر اور کامیاب رہی ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے ملنے والی تائید بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو مزید تقویت بخشتی ہے۔ یہ حمایت اس امر کی بھی غمازی کرتی ہے کہ بھارتی بیانیہ بااثر عالمی کھلاڑیوں کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ درحقیقت یہ حمایت پاکستان کی جانب سے کی جانے والی سنجیدہ سفارتی کوششوں کا ثمر ہے جس میں اسلام آباد نے اپنا نقطہ نظر واضح دلائل اور حقائق کی روشنی میں عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ صرف یہی نہیں ان ممالک کی حمایت مستقبل میں بھی بھارت کیلئے ایک اہم چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص چین کی حمایت پاکستان کیلئے ایک قیمتی سفارتی سرمایہ ہے کیونکہ ایک عالمی طاقت ہونے کی حیثیت سے چین کا مؤقف بین الاقوامی رائے عامہ پر گہرا اثر رکھتا ہے۔
کورکمانڈرز کانفرنس میں بھارتی جارحیت کی ہر صورت کا مؤثر جواب دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔اگرچہ ابھی جنگ کے خطرات ٹلے نہیں ہیں تاہم بھارت کی طرف سے پیش قدمی نہ کرنے کی اہم وجہ اسکی فضائیہ کی ناقص کارکردگی ہے جس نے اسکے قدموں میں زنجیریں ڈال دیں ہیں۔ بھارت نے پاک فضائیہ کا مقابلہ کرنے کیلئے فرانس سے رافیل طیارے خریدے تو شور برپا ہوا کہ رافیل میں ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت موجود ہے مگر اطلاعات ہیں کہ پاک فضائیہ نے چین کی مدد سے تیار کردہ جے ایف17 تھنڈر طیارے کے جدید ریڈار سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے ایل او سی کے قریب اُڑنے والے بھارتی رافیل طیاروں کو لاک کر لیا تھا۔ یعنی پاکستان رافیل طیاروں کو بآسانی تباہ کر سکتا ہے۔ شنید ہے پاک فضائیہ کی اس برتری کے بعد بھارت نے پاکستان پر جارحیت کا ارادہ ترک کر دیا ہے کیونکہ بھارت جن طیاروں پر انحصار کر کے جنگ میں کود رہا تھا وہ توقعات پر پورا نہیں اُتر رہے۔ جدید جنگوں کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں فضائی برتری ایک کلیدی حیثیت اختیار کر چکی ہے جہاں زمینی کارروائیوں کی اہمیت نسبتاً کم ہوتی جا رہی ہے۔ بھارتی فضائیہ کے جنگی طیارے پے در پے حادثات کا شکار ہوتے رہے ہیں‘ جس نے ان کی آپریشنل تیاری اور کارکردگی پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پاک فضائیہ کے پائلٹ اپنی اعلیٰ تربیت‘ تکنیکی مہارت اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں جو انہیں عالمی فضائی قوتوں میں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ یہ وہ اہم عوامل ہیں جنہوں نے بھارت کو پاکستان پر کھلی جارحیت سے روک رکھا ہے مگر دونوں ملکوں میں کشیدگی کسی نہ کسی صورت موجود رہے گی اور بھارت پاکستان کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچانے کی تاک میں رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں