"RS" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ میں دہکتے شعلے

مشرقِ وسطیٰ میں جن خطرات کا اندیشہ تھا اب وہ حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک خطرات کے جو بادل منڈلا رہے تھے‘ اب وہ بھڑکتے شعلوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں کیونکہ بڑی طاقتیں ایران‘ اسرائیل جنگ کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہیں۔ ایران کی تین جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی کارروائی کے بعد جنگ کا دائرہ غیر معمولی حد تک وسیع ہو چکا ہے۔ بڑی طاقتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ایران اسرائیل جنگ کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتیں مگر اس کے برعکس امریکہ نے طاقت کا راستہ اختیار کیا‘ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے پہلے مرحلے میں انتہائی قدم کیوں اٹھایا؟ ابتدائی طور پر سفارتکاری کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ کیا امریکہ نے ایران کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے اسرائیل کی حمایت کی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ میں اسرائیل کی انتہائی مضبوط لابی موجود ہے جو اسرائیلی سلامتی کے معاملات پر امریکی قیادت پردباؤ ڈالتی ہے۔ اس دباؤ کی ایک واضح مثال ملاحظہ ہو کہ دو روز قبل تک ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو انتباہ جاری کر رہے تھے اور اسے 15 دن کا وقت دے رہے تھے مگر پھر اچانک ہی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر دیا گیا۔ اس ڈرامائی تبدیلی کی بنیادی وجہ امریکہ میں موجود اسرائیل کی یہی طاقتور لابی ہے جس نے ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ جو لوگ امریکی نظام کو سمجھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی امریکی ایوان میں نہایت مضبوط اور بااثر لابی سمجھی جاتی ہے۔ یہ کمیٹی اپنی مرضی کے فیصلے کرانے اور امریکی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کیلئے اپنا پورا اثر ورسوخ استعمال کرتی ہے۔ یہ کمیٹی وسیع نیٹ ورک‘ مالی وسائل اور منتخب نمائندوں کیساتھ براہِ راست تعلقات کے ذریعے کام کرتی ہے۔ یہ اسرائیل کے حامی امیدواروں کی انتخابی مہموں کی حمایت کرتی ہے اور اسرائیل سے متعلق قانون سازی پر کانگریس اور انتظامیہ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان کی لابنگ کی کوششیں امریکی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی سلامتی کو ایک بنیادی ترجیح بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت پر اسرائیل کے مفادات کے حوالے سے خاصا دباؤ رہتا ہے اور ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو اسرائیل کی پالیسیوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کا ایران پر فضائی حملہ صرف اس کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ خطے میں اپنے سب سے اہم اور قریبی اتحادی‘ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک کلیدی اقدام ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ایران‘ اسرائیل جنگ میں جارحیت کا آغاز اسرائیل نے کیا ‘ اسی طرح امریکہ نے بھی جنگ میں شامل ہو کر خطے کی دوسری قوتوں کو جنگ میں شریک ہونے کا جواز فراہم کر دیا ہے۔ امریکی حملوں کے بعد ایران کیلئے خاموش رہنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے امریکی صدر نے پیشگی خبردار کر دیا کہ اگر ایران باز نہ آیا تو آئندہ حملے پہلے سے زیادہ شدید ہوں گے۔ ظاہر ہے ایران امریکی حملوں پر خاموش نہیں رہے گا اس نے امریکہ کی دُکھتی رگ (اسرائیل) پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر ہائپر سونک میزائل داغے ہیں جو جنگ کی شدت میں مزید اضافے کا اشارہ ہے۔ ایران نے آبنائے ہرمز کی بندش کا بھی عندیہ دیا ہے‘ جس کا حتمی فیصلہ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کرے گی۔ آبنائے ہرمز کی بندش سے عالمی تیل کی ترسیل پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس سے عالمی معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو گی۔ ایران اس جنگ کو سفارتی محاذ پر لے گیا ہے جہاں اسے کئی ممالک کی حمایت حاصل ہے‘ پاکستان سمیت متعدد ممالک نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس خطے کی سلامتی کے پیش نظر فوری جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ چین بھی ایران کے جوہری مسئلے کا حل سفارتکاری کے ذریعے چاہتا ہے جبکہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی قائم مقام ایلچی نے مؤقف اختیار کیا کہ ایران نے امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے اور کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔
امن کیا ہے‘ امن کے معانی کیا ہیں؟ اس ضمن میں ہر ملک کے اپنے پیمانے ہیں۔ امریکہ ایران کی یورینیم افزودگی کو بدامنی سے تعبیر کرتا ہے جبکہ ایران اسے پُرامن مقاصد اور توانائی کی ضروریات کیلئے ضروری قرار دیتا ہے۔جب تک بڑے ممالک امن کیلئے اپنے خود ساختہ پیمانوں سے باہر نکل کر نہیں سوچتے دنیا میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ امریکی حملوں کے بعد ایران نے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ یہ ایک اہم تبدیلی ہے کیونکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو دس دن گزرنے کے باوجود ایران نے اس سے پہلے سفارتی رابطے بڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ سفارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اگر ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل آبنائے ہرمز کی بندش کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے اثرات صرف خطے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ یہ اقدام عالمی تیل کی ترسیل کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا کیونکہ دنیا بھر میں تیل کا ایک بڑا حصہ اسی آبی گزرگاہ سے گزرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں عرب ممالک کی تیل سپلائی شدید متاثر ہو گی‘ جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں۔ اسی طرح چین جیسے بڑے تیل درآمد کنندہ ممالک جو اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے ایران پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں‘ وہ بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے‘ اس صورتحال پر قطعی خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات اور عالمی تجارت میں اس کے کلیدی کردار کے پیش نظر آبنائے ہرمز کی بندش چین کو معاشی اور تزویراتی طور پر ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دے گی جس کے جواب میں چین کی جانب سے سخت ردِعمل متوقع ہے۔ بڑی طاقتوں کی اس جنگ میں شمولیت سے تنازع کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے اور اس کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔
اس موقع پر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کا ماسکو کا دورہ اور روسی صدر پوتن سے ملاقات محض ایک رسمی سفارتی رابطہ نہیں ہے بلکہ یہ ملاقات اس حکمت عملی کا حصہ ہے جو چین کی قیادت میں تشکیل پا رہا ہے۔ یہ اسی اتحاد کی تازہ کڑی ہے جس کا بنیادی مقصد امریکہ کی دنیا پر اکیلے حکمرانی کی سوچ کو برسوں کی تیاری کے بعد اب چیلنج کرنا ہے۔ یہ اتحاد ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی طاقت کے توازن میں تبدیلی کی کوششیں تیز ہو رہی ہیں۔ روس جو پہلے ہی چین کے ساتھ برکس اور توانائی معاہدوں میں شامل ہے‘ اب ایران کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں‘ گیس اور اسلحہ تجارت اور سیاسی ہم آہنگی کے ذریعے ایک نیا ''یوریشین محور‘‘ قائم کر چکا ہے۔ چین‘ روس‘ ایران اور شمالی کوریا کا یہ غیر رسمی اتحاد نہ صرف اقتصادی ہم آہنگی بلکہ دفاعی تعاون میں بھی مسلسل اہمیت اختیار کر رہا ہے۔ پاکستان کا واضح جھکاؤ اس بلاک کو وسعت دے رہا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک‘ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائنز اور روس کے ساتھ دفاعی بات چیت یہ سب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان بھی اس نئی عالمی صف بندی کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ دوسری طرف چین اور امریکہ کے درمیان ٹیرف وار نے بھی اس اتحاد کو تقویت دی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے پیچھے ایک خاموش عالمی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ چین‘ روس‘ ایران‘ شمالی کوریا اور پاکستان جیسے ممالک بظاہر الگ الگ مگر درحقیقت مربوط انداز میں ایک نئی طاقت کا مرکز تشکیل دے رہے ہیں جو مستقبل کی دنیا میں طاقت کے توازن کو یکسر بدل سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں