بونیر کے پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے لوگوں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ زندگی کی ریل ان کو تباہی کے اس مقام پر لے آئے گی۔ چند ہی ساعتوں میں ان کی خوشیاں‘ آرزوئیں اور قہقہے ایک دردناک ماتم میں بدل گئے۔ فطرت کے ایک ہی وار نے ان کے گھروں‘ امیدوں اور خوشیوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ خیبرپختونخوا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں گرجتے بادلوں اور قہر ڈھاتی ندیوں نے ایسا رنگ دکھایا کہ لمحوں میں ہنستے بستے گھر کھنڈرات کا ڈھیر بن گئے۔ کتنے ہی خاندان پلک جھپکتے خاک میں مل گئے اور ان کی یاد میں آنسو بہانے والا بھی کوئی نہ بچا۔ جس خاندان کے چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے اور صرف ایک نوجوان بچا‘ اس کی باقی زندگی کیسے کٹے گی؟ زندگی بھر کی کمائی‘ جو پیار اور خون پسینے سے جمع کی تھی‘ وہ ایک ہی پل میں پانی کی بے رحم لہروں کی نذر ہو گئی۔ وہ مکانات جن کی بنیادیں برسوں کی محنت سے ڈالی گئی تھیں‘ آج ان کا نام و نشان تک نہیں۔ یہ صرف مکانات نہیں تھے بلکہ ان میں رہنے والوں کی امیدیں‘ خواب اور خوشگوار مستقبل بھی تھا۔ سیلاب نے ان سے ان کا سب کچھ چھین لیا۔ اب ان کے پاس صرف غم ہے‘ آنسو ہیں‘ اپنے پیاروں کی یادیں اور زندگی بھر کا درد ہے۔ قدرت کی بے رحم موجوں نے ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ہے۔ جہاں کچھ ساعتیں پہلے ہنستے بستے گھر تھے‘ وہاں اب فقط پانی کا راج اور ویرانیوں کا نوحہ ہے۔ حکومت اور فلاحی ادارے اگرچہ ان بکھری ہوئی زندگیوں کو سمیٹنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں لیکن یہ حادثہ اتنا شدید ہے کہ اس کے گہرے زخم بھرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔ بے شک امدادی کارروائیاں جاری ہیں‘ خوراک‘ رہائش اور ادویات کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے مگر یہ سب کچھ اس نقصان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اس سیلاب نے انسانی روحوں کو پہنچایا ہے۔ یہ ایک ایسا جانی و مالی نقصان ہے جس کا ازالہ ممکن ہی نہیں۔ یہ سیلاب صرف مادی چیزوں کو نہیں بہا کر لے گیا بلکہ اپنے ساتھ خواب‘ امیدیں اور آنے والے کل کی آس بھی لے گیا۔ یہ ایک ایسی کربناک داستان ہے جس کا درد نہ لفظ بیان کر سکتے ہیں اور نہ وقت کے ساتھ بھلایا جا سکتا ہے۔
بونیر آج آنسوؤں کی وادی ہے‘ جہاں ہر گھر کا ماتم پہاڑوں کی خاموش چوٹیوں تک سنائی دیتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ کی ہولناک بارش نے زمین کو یوں کاٹا جیسے آسمان نے اپنا ساراقہر ایک ہی لمحے میں انڈیل دیا ہو۔ وہ بارش جسے کبھی زندگی کی نوید سمجھا جاتا تھا‘ آج موت اور ویرانی کی علامت بن گئی ہے۔ گاؤں کے گاؤں سیلاب میں بہہ گئے‘ کھیت اجڑ گئے‘ مال مویشی ڈوب گئے۔ معصوم بچوں کی لاشیں ملبے کے ڈھیر تلے سے نکلیں تو فضا اور بھی بوجھل ہو گئی۔ پہاڑوں کے دامن میں رُکی نمی جب ایک دم برس پڑتی ہے تو اپنے ساتھ زمین کی جڑیں بھی بہا لے جاتی ہے۔ یہی کلاؤڈ برسٹ ہے جو لمحوں میں بستیاں اجاڑ دیتا ہے‘ لیکن المیہ یہیں ختم نہیں ہوتا‘ حکومتی شخصیات کے پروٹوکول قافلے سیلاب سے متاثرہ افراد کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مزید بوجھ ڈالتے ہیں۔ پہلے ہی سے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں درجنوں گاڑیوں کے رش سے مزید تنگ اور شکستہ ہو جاتی ہیں اور متاثرین تک پہنچنے والے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ مناظر اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ کیا ہماری ترجیحات انسانیت کی خدمت ہے یا اپنی نمائش؟
سیلاب سے ہونے والی بربادی اتنی وسیع ہے کہ الفاظ بھی چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ یہ صرف بونیر یا سوات کی آزمائش نہیں بلکہ پورے ملک کے وجود کو جھنجھوڑنے والا المیہ ہے۔ اربوں کھربوں کا نقصان‘ بے گھر خاندان‘ اجڑے ہوئے کھیت‘ یہ سب ہمیں ایک ہی صدا دے رہے ہیں کہ ہم تنہا نہیں سنبھل سکتے۔ مگر اس اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی ہے۔ فلاحی تنظیموں کے کارکن‘ مقامی نوجوان‘ خواتین اور بوڑھے سب اپنی بساط کے مطابق امید کا چراغ جلا رہے ہیں۔ کوئی کندھوں پر سامان اٹھا رہا ہے‘ کوئی اپنا اناج بانٹ رہا ہے‘ اور کوئی دور بیٹھ کر مالی امداد بھیج رہا ہے۔ یہ سب مل کر ثابت کر رہے ہیں کہ قومیں آفات میں ٹوٹتی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا بن کر نئی قوت کے ساتھ ابھرتی ہیں۔ آج وقت یہ پکار رہا ہے کہ ہم سب اپنی اناؤں اور فاصلے بھلا کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔ یہ امتحان حکومتوں کے بس کا نہیں‘ یہ پوری قوم کے عزم اور یکجہتی کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے دلوں کو جوڑا تو یہ المیہ ہماری طاقت کا مظہر بنے گا۔ بونیر کی اجڑی وادی ہمیں دعوت دے رہی ہے کہ ہم آنسوؤں کو ہمت میں بدل دیں اور بربادی کو نئی تعمیر کا آغاز بنا لیں۔ یہ زمین جو آج سیلابی مٹی اور پتھروں تلے دبی ہوئی ہے‘ کل انہی ہاتھوں کی مدد سے دوبارہ سرسبز ہو گی۔ شرط یہ ہے کہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ یہ لمحہ مایوسی کا نہیں بلکہ حوصلے اور قربانی کا ہے اور جب ایک قوم حوصلے کے ساتھ اٹھتی ہے تو کوئی آفت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔
پہاڑوں پر برسنے والی طوفانی بارشوں نے جو قیامت خیبرپختونخوا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں برپا کی ہے‘ اس کا پانی اب نشیبی علاقوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگلے چند روز تک ملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشوں کی پیشگوئی بھی کی گئی ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ غم صرف شمالی علاقوں کا نہیں بلکہ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کی لہریں جنوبی پنجاب اور سندھ تک بھی پہنچیں گی۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ یہ دکھ مشترکہ ہے اور اس مشکل گھڑی میں ہمیں آپس کے بھائی چارے اور تعاون سے ہی نجات مل سکتی ہے۔ ہمیں اپنے زخموں کو خود ہی مندمل کرنا ہو گا کیونکہ دنیا کب تک ہمارا ہاتھ تھامے گی؟ ہمیں بار بار عالمی برادری کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اور ایک قوم بن کر اس آزمائش کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ فطرت نے سیلاب کی شکل میں آج جو قہر ڈھایا ہے‘ وہ دراصل ہماری اپنی کوتاہیوں کا عکس ہے۔ ہم نے زمین کے سینے پر اپنی ہوس کے نشتر چلا کر اس کے سبز پیرہن یعنی جنگلات کو بے دردی سے کاٹ کر اور اس کے محافظ یعنی پہاڑوں کو بے رحمی سے چیر کر اپنی تباہی کا سامان خود تیار کیاہے۔ یہ زمین جو کبھی ہمیں ماں کی طرح اپنی آغوش میں لیے ہوئے تھی‘ اب ہمارے کیے دھرے کی وجہ سے ہم سے منہ پھیر چکی ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں اور طوفانی بارشیں اسی بے حسی کا نتیجہ ہیں جس میں ہمارے لیے بڑا سبق ہے۔ یہ سیلاب فقط پانی کا ریلا نہیں بلکہ فطرت کا وہ شدید احتجاج ہے جو ہم نے اس کے ساتھ روا رکھا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی یہ سبق نہ سیکھا تو کل کی صبح شاید اس سے بھی زیادہ خوفناک ہو۔ ہماری بقا صرف اسی میں ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ جینا سیکھیں۔ جنگلات اور پہاڑوں کو محفوظ بنا کر ہی ہم اپنی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ صرف درخت اور پتھر نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کے ضامن ہیں۔ اب ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم اس زمین کو تباہ کریں گے تو اس کے نتائج کا سامنا بھی ہمیں خود ہی کرنا پڑے گا۔